پاکستان (نیوز اویل)، یوں تو جھوٹ بولنا ایک ایسا گناہ ہے جس کو انتہائی نا پسند کیا گیا ہے اور جھوٹ بولنے والے پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔
لیکن ایسی صورتحال بھی موجود ہے جس میں جھوٹ بولنے کو جائز و حلال قرار دیا گیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کچھ حالات میں جھوٹ بولنے کی چھوٹ گئی ہے۔
ایک وہ صورت ہے کہ جب کسی کی بیوی اس سے ناراض ہو ہو تو وہ اپنی بیوی کو راضی کرنے کے لیے یا اس سے بات کرنے کے لیے جھوٹ بول سکتا ہے۔ کیوں کہ اس بات سے ہم سب واقف ہیں کہ شیطان سب سے زیادہ اسی وقت خوش ہوتا ہے
جب میاں بیوی آپس میں ناراض ہوں۔ آپس کی ناراضگی ختم کرنے کے لیے اگر کبھی جھوٹ کا سہارا لینا نا گزیر ہو تو کوئی بات نہیں۔
دوسری وہ صورت ہے کہ میدان جنگ میں دشمن پر غالب آنا مقصد ہو تو بھی جھوٹ بولنا جائز اور حلال ہے۔ تیسری وہ صورت ہے کہ اگر دو گروہوں میں جھگڑا ہو جائے اور ان میں صلح کروانی ہو ہو تو جھوٹ بولا جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے لہذا اگر غلط بیانی اور جھوٹ سے اس نیت سے کام لیا جائے کہ کوئی اچھا کام کرنا انسان کا مقصد ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ نیک نیتی کی وجہ سے انسان کا ایسا جھوٹ گناہ کے زمرے میں نہیں آتا اور وہ عذاب سے بچ جاتا ہے۔
اس لیے ہمیں چاہیے کہ اگر ہمارا مقصد نیک ہو یعنی ہم لوگوں میں صلح کرانا چاہتے ہوں یا میدان جنگ میں کفار پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہوں تو ایسی صورت میں اگر کبھی غلط بیانی سے کام لے لیا جائے تو وہ غلط عمل نہیں کہلائے گا۔