پاکستان (نیوز اویل)، سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان عدم اعتماد نہیں بھی ہوتا تب بھی نقصان عمران خان کا ہی ہے کیونکہ اس طرح کی تحریکوں سے حکومت بہت زیادہ بد نام ہو جاتی ہے۔
یاد رہے کہ مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی میں آج کل رابطے بہت بڑھ رہے ہیں اور دونوں پارٹیوں نے 2023 کے الیکشن کے لیے مل کر حکمت عملی اپنانے کی ٹھان لی ہے۔ یہ تجویز آصف علی زرداری کی طرف سے پیش کی گئی تھی جسے مسلم لیگ کے رہنماؤں نے بھی قبول کیا ہے۔
سننے میں آرہا ہے کہ زرداری شہباز شریف مریم نواز اور بلاول کی ملاقات ہو رہی ہیں اور ان میں یہ حکمت عملی اپنائی گئی ہے کہ آئندہ الیکشن میں جب کسی بھی پارٹی کو دوسرے کی ضرورت ہوگی تو ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد لائی جائے اور یہ عمران خان کو حکومت سے نکالنے کا بہترین طریقہ ہے بلاول بھٹو کا مزید کہنا تھا کہ اگر پہلے بھی پاکستان پیپلزپارٹی کے تجویز پر غور کیا جاتا تو عمران خان آج اقتدار میں نہ ہوتے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اب پاکستان پیپلزپارٹی کی دی ہوئی تجاویز پر غور کیا جائے اور تحریک عدم اعتماد لائی جائے اور اگر آئینی کوششیں ناکام ہوتی ہیں تو لونگ مارچ کریں گے اور دھرنے دیں گے شہباز شریف کا اس پر کہنا تھا کہ آپ کی تجاویز قابل غور ہیں۔