پاکستان (نیوز اویل)، عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دعا مشکلوں اور تکلیفوں کو دور کرنے کے لئے مانگی جاتی ہے۔ جب انسان کسی مشکل کا شکار ہوتا ہے تو ہی دعا مانگنی چاہیے۔
یا جب اسے کوئی چیز چاہیے ہوتی ہے تو وہ اللہ کے حضور حاضر ہو کر اللہ تعالی سے وہ چیز مانگتا ہے۔ صرف ضرورت کے وقت اللہ کو پکارا جاتا ہے، یہ انتہائی غلط خیال ہے۔
اللہ تعالی کو پکارنے کا سب سے پہلا اور اولین مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان اللہ تعالی کے قرب کا طلبگار ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ صراط مستقیم پر رہے۔ اپنے پروردگار کی معرفت حاصل کرے اور اس کی نظروں میں اس کا پسندیدہ بندہ بن جائے۔
انسان فطرتا بہت بے صبرا ہوتا ہے۔ اکثراوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ ہم جب دعا مانگتے ہیں تو صبر کا دامن نہیں تھامے رکھتے بلکہ کچھ بار دعا مانگ کر دیکھتے ہیں، وہ قبول نہ ہو تو مایوس ہو کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہماری دعا رد ہوگئی ہے اور وہ دعا مانگنا چھوڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دعا پوری ضرور ہوتی ہے لیکن مقررہ وقت پر۔
اللہ جانتا ہے کہ ہر چیز اور ہر کام کے لیے کون سا وقت بہتر ہے۔ لہذا وہ اسی وقت پر انسان کی دعا قبول کرتا ہے۔ انسان کوچاہئے کہ وہ صبر سے کام لے اور اپنی دعاؤں پر ثابت قدم رہے۔
ایک روایت کے مطابق فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کے جمعہ کے دن میں ایک ایسی ساعت آتی ہے کہ جب انسان اللہ کے حضور نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے جو بھی مانگے، اس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ جو شخص رات کے آخری پہر میں قیام کرتا ہے اور اللہ سے دعا مانگتا ہے تو اس وقت پر مانگی جانے والی دعا ضرور پوری ہوتی ہے۔ یعنی فرض نماز کے بعد رات کے آخری پہر میں میں نفلی عبادت کی جائے اور اس کے بعد اللہ تعالی سے دعا مانگی جائے تو اللہ کو وہ دعا بہت پسند ہوتی ہے۔