پاکستان (نیوز اویل)، ایک مرتبہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک غریب دیہاتی انگوروں کا تحفہ لے کر پہنچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحفہ قبول فرمایا اور انگور کا ایک دانہ توڑ کر کھا لیا اور مسکرائے۔ وہ دیہاتی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسکراتا دیکھ کر خوش ہوا کہ اس کا تحفہ قبول کر لیا گیا ہے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور دانہ توڑ کر کھایا اور پھر مسکرائے۔ اس طرح ایک کے بعد ایک دانہ کھاتے کھاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دیہاتی کو دیکھ کر مسکراتے گئے۔
صحابہ کے لیے یہ غیر معمولی بات تھی کہ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تحفے میں آئے تمام انگور خود کو کھا لئے اور انہیں اس میں سے حصہ کیوں نہ دیا۔ وہ غریب دیہاتی خوشی خوشی جب وہاں سے چلا گیا
تو صحابہ نے آپ سے ان کے اس عمل کی وجہ دریافت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بوڑھا غریب دیہاتی جب انگور لے کر آیا اور میں نے پہلا دانہ کھایا تو مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ انگور کھٹے ہیں۔
مگر میں نے اس غریب دیہاتی پر یہ حقیقت آشکار نہ ہونے دی اور اسے محسوس نہ ہونے دیا تاکہ اس کی خوشی ماند نہ پڑ جائے۔
مجھے معلوم تھا کہ اگر میں یہ انگور سب میں بانٹتا تو کسی نہ کسی شخص کے عمل سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ انگوروں کا ذائقہ کھٹا ہے۔ نتیجتا اس دیہاتی کی خوشی پھیکی پڑ جاتی۔
اس لیے میں نے مصلحت سے کام لیتے ہوئے وہ سب انگور خود کھا لیے اور اس پر ظاہر نہ ہونے دیا کہ ان کا ذائقہ کھٹا ہے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حسن اخلاق کے اس اعلی ترین درجے پر تھے جہاں کسی بھی ذی روح کا پہنچنا ناممکن ہے۔