پاکستان (نیوز اویل)، قرآن پاک میں حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے کو بیان کیا گیا ہے اور اسے احسن القصص کہا گیا ہے۔ اس قصے میں زندگی کے مختلف پہلوؤں سے متعلق ہماری رہنمائی کے لئے بہت سی باتیں موجود ہیں۔
یہ قصہ تا قیامت ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔
حضرت یوسف کے سوتیلے بھائیوں کے ان کے ساتھ برے سلوک کی وجہ سے حضرت یوسف کو بہت مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام سلام اپنے عزیز ترین بیٹے سے محروم ہو گئے۔
اس عالم میں بھی حضرت یعقوب کی زبان سے دعائیہ کلمات ہی نکلے۔ انہوں نے اگر کچھ فرمایا تو یہ کہ میں اپنے غم اور اپنی پریشانی کا اظہار خدائے بزرگ و برتر سے ہی کرتا ہوں۔
حضرت یعقوب کا اس وقت پر ایسا ردعمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جب بھی کسی مومن کو پریشانی لاحق ہوتی ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہوئے بغیر اللہ کی بارگاہ میں درخواست کرتا ہے۔ اگر اس کی کوئی عزیز چیز کھو جائے تو وہ اس کو پانے کے لئے بھی ابھی اللہ کے حضور دعا گو ہوتا ہے۔
اگر اس کو کوئی مصیبت درپیش ہو تو بھی اللہ کے آگے مدد کے لیے دامن پھیلاتا ہے۔ وہ کسی بھی پریشانی کے عالم میں غیر اللہ کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا بلکہ اس کی امیدوں کا مرکز ہمیشہ اللہ ہوتا ہے۔ وہ کبھی کسی انسان یا کسی بت سے فریاد نہیں کرتا۔ اگر وہ فریاد کرتا ہے تو محض اللہ تعالی سے۔
کیوں کہ اس کا ایمان یہ ہوتا ہے کہ اللہ اس کائنات کا خالق اور مالک ہے۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے حکم کا تابع ہے۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ کوئی بھی عمل اس کی مرضی کے بغیر انجام پا سکے۔
اس کے لئے کچھ بھی ناممکن نہیں۔ اس کی ذات غنی اور بے نیاز ہے۔ اس کے خزانے بے حساب ہیں۔ وہ اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی بارشیں مسلسل برساتا رہتا ہے۔ لہذا جو کام دیکھنے میں مشکل لگ رہا ہو اللہ کے آگے وہ بھی ممکن ہے۔
تو کیوں نہ ایسی ذات کے سامنے نے دست حاجت پھیلایا جائے اور اس سے اپنی امیدیں وابستہ کر کے گڑگڑا کر دعا مانگی جائے کہ وہ ہمیں وہ سب عطا کرے جو ہم چاہتے ہیں اور ہماری مصیبت اور تکلیف دور کر دے۔