شہباز شریف اور مفتاح اسماعیل کے منتوں ترلوں کے باوجود آئی ایم ایف کیوں نہیں مان رہا ؟ کوئی بھی ملک اتحادی حکومت کی مدد کیوں نہیں کررہا ؟ جاوید چوہدری نے حیران کن حقائق قوم کے سامنے رکھ دیے

پاکستان (نیوز اویل)، مشہور کالم نگار جاوید چوہدری نے حال ہی میں ایک کالم لکھا ہے جس میں انہوں نے پاکستان کی وجہ سے صورتحال کو اردو کے مشہور شاعر غالب سے تشبیہ دی ہے ،

 

 

 

 

 

جاوید چوہدری اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ غالب نے اپنی زندگی قرض لے لے کر گزاری اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہت ہی مشہور اردو کے شاعر تھے لیکن وہ جو بھی کماتے شراب اور جوئے میں لگا دیتے شاہانہ لباس پہنا کرتے تھے تھے

 

 

 

 

اور کچھ نہ ہونے کے باوجود بھی تو کچھ جمع ہوتا اسے عمدہ کھانا کھانے میں لگا دیتے ، روز ہی وہ کسی نہ کسی سے قرض لیتے اور روزانہ ہی ان کے دروازے پر کوئی نہ کوئی قرض مانگنے کے لیے آنے والا کھڑا ہو جاتا تھا لیکن میں کبھی بھی یہ کوشش نہیں کی کہ آپنی زندگی سنواریں ،

 

 

 

جاوید چودھری لکھتے ہیں کہ پاکستان کی بھی حالت مرزا غالب کی سی ہے اور ہم لوگ پچھلے پچھتر سالوں سے مرزا غالب کی طرح کی زندگی گزار رہے ہیں اور اپنی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کسی قسم کی کوئی کوشش نہیں کرتے ،

 

 

 

پاکستان ہر لحاظ سے قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے اور پاکستان میں نمک کی دوسری بڑی کان موجود ہے اس کے علاوہ پاکستان جغرافیائی اعتبار سے بھی ہر طرح سے موزوں ہے

 اور یہاں پر درجہ حرارت ہر چیز کے لئے بہترین ہے لیکن ان تمام خوبیوں کے باوجود پاکستان اس قسم کی صورتحال سے کیوں دوچار ہے ، ہم کیوں اتنی بے چارگی کی زندگی گزار رہے ہیں

 

 

 

پاکستان کی معیشت کس وجہ سے بہتر نہیں ہو سکی اس کو ہم تین الفاظ میں بیان کر سکتے ہیں قیادت کا فقدان ، قرض اور بے کاری ، ان تمام چیزوں نے پاکستان کو بھی آگے نہیں بڑھنے دیا حکومتیں ہر دوسرے دن آئی ایم ایف کے سامنے جھولی پھیلا کر کھڑی ہو جاتی ہیں ،

 

 

 

ہماری موجودہ حکومت ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی جگت مار دیتی ہے پچھلے دو ماہ کے اندر ملک کی صورتحال انتہائی خراب ہوگئی ہے مہنگائی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور لوگوں کو دو وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہو گیا ہے ،

 

 

اور اب سعودی عرب ، چائنا اور امریکہ کوئی بھی ہماری حکومت کو منہ بھی نہیں لگا رہا بلکہ بس لارے لگا رہے ہیں اور ہماری حکومت کو لگتا ہے وہ پھر سے ہماری جھولی میں قرض رکھ دیں گے ۔

 

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *