پاکستان (نیوز اویل)، خواجہ سراؤں کی بات کی جائے تو ان کے لیے زندگی کافی زیادہ مشکل ہوتی ہے اگر پاکستان میں ان کی تعداد کی بات کی جائے تو ان کو مردم شماری میں بھی شامل نہیں کیا جاتا
حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک خواجہ سرا جن کا نام عاشی بٹ ہے ان کا انٹرویو بہت زیادہ وائرل ہو رہا ہے جس میں انہوں نے کافی حقیقتوں سے پردہ اٹھایا ہے
عاشی بٹ ایک شیلٹر ہوم بھی چلا رہی ہیں جس میں وہ 50 سال سے زائد عمر کے خواجہ سراؤں کو رہنے کی جگہ اور کھانا پرووائیڈ کرتی ہیں اور اس کے علاوہ جو خواجہ سرا بیمار ہوتے ہیں ان کا علاج کرواتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جن خواجہ سراؤں کو دفنانے کے لیے کوئی نہیں ہوتا ان کے کفن دفن کا بھی انتظام کرتی ہیں
عاشی بٹ کا کہنا ہے کہ وہ ایک کافی کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کو اس بات کا علم اس وقت ہوا جب وہ 15 سال کی تھی اور میٹرک کی طالبہ تھی تو ان کو پتہ چلا کہ ان کے اندر کوئی کمی ہے
ان کا کہنا تھا کہ مجھے کافی زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا میرے بھائی کے دوستوں نے میرا کافی مذاق اڑایا جس کے بعد میں دل برداشتہ ہو کر گھر چھوڑ مر آ گئی انہوں نے مزید بتایا کہ میرے والد بھی سیاست سے تعلق رکھتے ہیں اور میرا بھائی بھی وکیل ہے لیکن انہوں نے بھی مجھے قبول نہیں کیا
تو میں نے سوچا کہ میں خواجہ سراؤں کے لیے کوئی اچھا کام کروں گی انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنی جمع پونجی لگا کر ایک شیلٹر ہوم بنایا جس کی جگہ بھی انہیں کافی مشکلات کے بعد ہی ملی تھی
جب ان سے ان کے خاندان کے بارے میں اور ان کی والدہ کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ رونے لگ گئی ان کا کہنا تھا کہ میری والدہ میرے سے بہت زیادہ محبت کرتی تھی جب تک وہ زندہ تھیں چھپ چھپ کر مجھ سے ملنے آیا کرتی تھیں لیکن ان کی وفات پر مجھے ان کا منہ بھی نہ دیکھنے دیا گیا اور مجھے دھکے دے کر گھر سے نکال دیا گیا ،
ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ سب خواجہ سرا برے نہیں ہوتے بلکہ حلال کی روزی کمانا چاہتے ہیں حکومت کو چاہیے کہ وہ خواجہ سراؤں کے لیے الگ سے شعبوں میں سیٹیں رکھا کریں جس پر وہ اپنی کارکردگی کی بنا پر نوکری حاصل کر سکیں اور حلال روزی کما سکیں ،
انہوں نے کبھی بتایا کہ وہ کافی مارننگ شوز میں بھی گئی ہیں لیکن لوگ ان کی مدد نہیں کرتے لیکن ان کو طالبات کے ساتھ ایک الگ انس ہے ان کا کہنا تھا کہ وہ کافی یونیورسٹیز بھی وزٹ کر چکی ہیں جس میں وہ شیلٹر ہوم کے لیے فنڈز اکٹھے کرتی ہیں اور طلبہ ان کی بہت زیادہ مدد کرتے ہیں ،
آخر میں ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو چاہیے کہ وہ خواجہ سراؤں کو قبول کریں اور جن لوگوں کے گھر اگر اس طرح کا بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو اس کو حقیر نہ سمجھیں بلکہ باقی بچوں کی طرح اس کو پیار کریں تاکہ کوئی اور بچہ اس طرح سے گھر نہ چھوڑے ،