پاکستان (نیوز اویل)، حضرت عزیر علیہ السلام حضرت ہارون کے بیٹے تھے اور بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے تھے۔ یہ چھٹی صدی قبل از مسیح کی بات ہے جب بنی اسرائیل کی سرکشیاں اپنے عروج پر تھیں۔
حضرت عزیر فلسطین کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے کافر بادشاہ بخت نصر کے قیدیوں میں سے تھے۔ بخت نصر کی قید سے آزاد ہو کر جب حضرت عزیر اپنے شہر بیت المقدس میں داخل ہوئے تو وہاں کی بربادی اور ویرانی دیکھ کر انہیں بہت افسوس ہوا۔ درختوں پر پھل تیار تھے لیکن کوئی انہیں توڑ کر کھانے والا موجود نہ تھا۔
حضرت عزیر نے پھل توڑ کر کھائے اور انگوروں کا شیرہ نوش کیا۔ پھر بچا ہوا شیرا مشکیزے میں ڈالا، پھل اپنی چادر میں باندھے اور درخت کے نیچے سو گئے۔ وہیں ان کی وفات ہوگئی اور اللہ تعالی نے ان کو تمام جن و انس اور چرند پرند کی نظروں سے اوجھل کر دیا۔
وفات کے ایک سو بارہ سال بعد اللہ تعالی نے حضرت عزیر کو دوبارہ زندہ کیا تو انہوں نے اٹھ کر دیکھا کہ ان کا گدھا مر چکا ہے لیکن ان کے رکھے گئے پھل اور مشکیزے میں موجود انگوروں کا شیرا ابھی بھی صحیح سلامت تھا۔ ان کے بال بھی سیاہ تھے اور عمر بھی وفات سے پہلے چالیس برس والی ہی تھی۔ اللہ تعالی نے حضرت عزیر سے فرمایا کہ دیکھو ہم کس طرح تمہارے گدھے کو دوبارہ زندہ کرتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے گدھے کی ہڈیاں جوڑوں سے مل کر ایک ڈھانچے کی شکل میں ڈھل گئیں۔ لمحہ بھر میں اس ڈھانچے پر گوشت پوست بھی چڑھ گیا اور گدھا زندہ ہو گیا۔حضرت عزیر بے اختیار بول اٹھے کہ میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔