اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ٹک ٹاک بند کرنا ہی واحد راستہ ہے تو پھر تو گوگل بھی بند کریں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کی اور سیکریٹری وزارت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کرلیا۔
دورانِ سماعت درخواست گزار کی جانب سے مریم فرید ایڈووکیٹ جبکہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے منور اقبال دگل عدالت پیش ہوئے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل پی ٹی اے سے استفسار کیا کہ ٹک ٹاک کو کیوں بند کیا گیا؟
سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر ٹک ٹاک بند کرنا ہی واحد راستہ ہے تو پھر تو گوگل بھی بند کریں، یہ 21 ویں صدی ہے اس میں لوگوں کا ذریعہ معاش سوشل میڈیا ایپلی کیشن سے جڑا ہے۔
اس پر وکیل پی ٹی اے نے عدالت کو بتایا کہ پشاور اور سندھ ہائی کورٹ نے پابندی لگانے اور اس حوالے سے طریقہ کار بنانے کا کہا تھا۔
جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا پشاور ہائی کورٹ نے پوری ٹک ٹاک کو بند کرنے کا حکم دیا؟ اس پر وکیل پی ٹی اے نے پشاور اور سندھ ہائی کورٹس کا فیصلہ عدالت کو پڑھ کر سنایا۔