پاکستان (نیوز اویل)، مولانا طارق جمیل نے نے حیات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے ایک جلسے میں فرمایا کہ غزوہ حنین کے موقع پر شکست ہو جانے کے بعد جب سب بھاگ رہے تھے
تو ایک صحابی کا پاؤں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں پر آ گیا۔ چونکہ اس نے جنگ میں پہنے جانے والا سخت جوتا پہنا ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پاؤں پر چھڑی ماری کیونکہ انہوں نے اپنے پاؤں پر تکلیف محسوس کی تھی۔
وہ صحابی بہت ڈر گیا اور اس خوف میں وہ رات کو سو نہیں سکا کہ اس سے یہ گناہ سرزد ہوگیا ہے تو اس کو اس کی سزا ضرور ملے گی۔ وہ اسی پریشانی کے عالم میں رات بھر کروٹیں بدلتا رہا۔
صبح نماز فجر کے بعد اعلان کیا گیا کہ جس صحابی کا پاؤں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں پر آیا تھا اس کو پیش کیا جائے۔ وہ صحابی مزید خوف کا شکار ہو گیا کہ ضرور اللہ کی طرف سے اس کے لیے سخت وعید سنائی گئی ہوگی۔
جب وہ بارگاہ رسالت میں پیش ہوا تو وہ حیرت کا شکار ہوگیا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سزا دینے کے لیے نہیں بلایا تھا بلکہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ سے غلطی سرزد ہو گئی کہ میں نے تمہارے پاؤں پر چھڑی مار دی، اب میں نے تمہیں معافی مانگنے کے لئے بلایا ہے، مجھے معاف کر دو اور میری طرف سے تحفے کے طور پر یہ ساٹھ اونٹنیاں قبول کر لو۔
وہ چھڑی اس صحابی کی لوہے کی ذرہ پر لگی تھی اور صحابی کو اس سے خاص تکلیف بھی نہ پہنچی تھی پھر بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے معافی مانگی اور اس کو الگ سے تحفہ بھی دیا۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کہ حسن اخلاق کے معاملے میں کوئی بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم پلہ نہیں ہے اور درگزر کرنے کے معاملے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے لئے باعث رحمت ہیں۔