“ساری ذمہ دار میری ہی تو نہیں ہے نا، کب تک اکیلا میں ہی امی ابو کے علاج اور باقی کے خرچے پورے کروں۔ میرے اپنے بچے بڑے ہو رہے ہیں۔ اکیلا میں کیا کیا کروں “عاطف نے قدرے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا تو باقی چھوٹوں کے منہ بن گئے۔ماں باپ الگ سر جھکائے بیٹھے تھے اور قصور نہ ہوتے ہوئے بھی خود کو مجرم تصور کررہے تھے۔
ایسا نہیں تھا کہ عاطف کوئی نافرمان بیٹا تھا بلکہ بڑا بیٹا ہونے کے ناطےعاطف اور اس کی بیوی نے واجد صاحب اور رابعہ بیگم ( ماں باپ ) کا ہمیشہ ہی بہت خیال رکھا تھا۔ لیکن اب واقعی اس کے اپنے بچے بڑے ہورہے تھے۔ بیٹیوں نے قد نکالنا شروع کردیا تھا۔ ان کے تعلیمی اخراجات اور جہیز بنانے کی فکر نے عاطف کی نیندیں اڑا دی تھیں۔ اور اس نے بہت سوچ سمجھ کر یہ مسئلہ سب گھر والوں کے سامنے رکھا تھا تاکہ باقی بھائی بھی ماں باپ کی ذمہ داری میں اس کا ہاتھ بٹائیں۔ لیکن باقی بھائیوں نے کبھی اس طرح کی ذمہ داری نہیں اٹھائی تھی اور وہ جانتے تھے کہ ان کی بیویاں یہ کبھی برداشت نہیں کریں گی۔
اس لئے ان کے چہرے پر جواب صاف لکھا تھا۔آج واجد صاحب سر جھکائے سوچ رہے تھے کہ ساری زندگی حلال رزق کے لئے انھوں نے کتنی محنت کی، سر اٹھا کر جیے اور آج اپنے ہی بچوں کے آگے وہ محتاج ہیں۔آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ پال پوس کو بڑا کرنے والے والدین کا وجود بڑھاپے میں اولاد کے لئے بوجھ بن جاتا ہے؟ کم آمدنی اور زیادہ اخراجات کے سبب بچے، اکثر چاہ کر بھی والدین کے فرائض ادا نہیں کرپاتے۔ غلطی کہاں ہو رہی ہے ماں باب کی تربیت میں یا پھر ہمارا معاشرتی نظام ہی کچھ اس طرح کا ہے جس میں والدین کو عمر کے آخری حصے میں ایک بوجھ کی طرح زندگی گزارنی پڑتی ہے؟ نیچے ہم اسی موضوع کو زیرِبحث لائیں گے کہ ماں باپ در حقیقت کس کی ذمہ داری ہوتے ہیں؟
ماں باپ کے مالی اخراجات
اگر ایک ہی بیٹا یا بیٹی ہے تو ظاہر ہے ماں باپ اسی کی ذمہ داری ہیں۔ اس صورت میں اخراجات کم کر کے ماں باپ کے فرائض پورے کیے جاسکتے ہیں کیونکہ بہرحال بیٹے یا بیٹی کے اوپر اپنے شوہر، بیوی اور بچوں کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے اس کے لئے خرچے کم کرنا ہی واحد حل ہے۔ لیکن اگر ایک سے زیادہ بہن بھائی ہیں تو بہترین حل یہی ہے کہ مالی اخراجات کے علاوہ ماں باپ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی انصاف کے اصولوں کو مدِنظر رکھ کر بانٹ لی جائے تو بہتر ہے۔ یاد رکھیں جو آپ کی اولاد آپ کو اپنے ماں باپ کے ساتھ سلوک کرتا دیکھے گی وہی سلوک کل وہ آپ سے کرے گی۔ یہ قدرت کا قانون ہے۔
ساس سسر کی خدمت فرض نہیں لیکن اخلاقیات نبھانا ضرور فرض
ہیںبہوئیں عام طور پر ساس سسر کی خدمت کے حوالے سے اسلام کا حوالہ دیتی ہیں کہ اسلام میں تو ساس سسر کی خدمت بہو پر لازم نہیں ہیں تو میں کیوں کروں؟ لیکن یہ کہتے ہوئے وہ بھول جاتی ہیں کہ اسلام نے حقوق العباد پر کتنا زور دیا ہے۔ جب ایک عورت میں اتنا اخلاق بھی نہیں کہ وہ بوڑھے ساس سسر کی خدمت کرے تو وہ خدا کی نظر میں کس طرح بلند مقام حاصل کرسکتی ہے؟ اگر ہر عورت ساس سسر کی جگہ اپنے والدین کو تصور کر لے تو یہ جھگڑا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے۔والدین بیٹیوں کی بھی اتنی ہی ذمہ داری ہیں جتنی بیٹوں کیعام طور پر سوچا جاتا ہے کہ ماں باپ بیٹوں کی ہی ذمہ داری ہیں کیونکہ بیٹیوں کو بیاہ کر سسرال جانا ہوتا ہے اس لئے ان پر والدین کی خدمت صرف شادی تک پہلے ہی فرض ہے جب کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔
اگر بھائی آپ کے والدین کے اخراجات اٹھانے کی استطاعت نہیں رکھتا اور آپ کے مالی حالات بھائی سے بہتر ہیں تو پھر آپ کا ہی فرض ہے کہ اپنے والدین کا خیال رکھیں۔ نہ صرف مالی طور پر بلکہ ان کی ہر طرح کی خدمت کرنا بیٹیوں کا اتنا ہی فرض ہے جتنا بیٹوں کا۔والدین آخری وقت کے لئے کچھ نہ کچھ بچا کر رکھیںحالات کا تقاضا تو یہی ہے کہ والدین جوانی سے ہی کچھ رقم پس انداز کرتے جائیں جو ان کے بڑھاپے میں ان کے کام آئے۔ کیونکہ اولاد اگر اچھی بھی ہو تو بھی آپ بوڑھے والدین کی ذمہ داری اٹھانا ان کے لیے بعض اوقات مشکل ہورہا ہوتا ہے-
مہنگائی اور بیروزگاری نے بچوں کی کمر اس حد تک توڑ دی ہوتی ہے کہ وہ چاہ کر بھی ماں باپ کا حق ادا نہیں کرپاتے۔ اس کے علاوہ جب تک صحت ساتھ ہے کام کرتے رہیں ۔ اگرچہ آپ پہلے کی طرح نہیں بھی کما سکیں گے پھر بھی کسی حد تک اپنے تھوڑے بہت خرچے پورے کرسکیں گے اس کے علاوہ آپ کو کسی پر بوجھ بننے کا احساس بھی نہیں ہوگا۔