پاکستان (نیوز اویل)، ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضرت علی چھوہارے بیچنے والوں کے بازار سے گزر رہے تھے کہ انہیں ایک لونڈی روتی ہوئی نظر آئی۔ آپ نے اس سے رونے کی وجہ دریافت کی تو اس نے بتایا
کہ وہ اپنے مالک کے لئے ایک درہم کے چھوہارے خریدنے کے لیے آئی تھی لیکن اس کے مالک کو چھوہارے پسند نہ آئے تو اس نے اسے چھوہارے واپس کرنے کے لیے بھیج دیا۔ اب وہ چھوہارے واپس کرنے آئی ہے تو دکان دار واپسی کے لیے تیار نہیں۔
حضرت علی نے اس دوکاندار سے درخواست کی کہ وہ اس کی بات مانتے ہوئے اسے چھوہاروں کے بدلے ایک درہم واپس کر دے۔ وہ دکاندار حضرت علی کو پہچانتا نہیں تھا۔ اس نے ان سے لڑ نا شروع کر دیا۔
اسے لوگوں نے بتایا کہ یہ امیرالمومنین ہیں تو اس دوکاندار نے معذرت کرتے ہوئے لونڈی سے چھوہارے لے کر اسے ایک درہم واپس دے دیا۔ دکاندار نے حضرت علی سے پوچھا کہ آپ مجھ سے خفا یا ناراض تو نہیں۔
اس پر مولا علی علیہ السلام نے اسے جواب دیا کہ میں تم سے اس وقت بالکل راضی ہو جاؤں گا جب تم اپنے اعمال درست کر لو گے۔
چونکہ انسان کے اعمال اس کے ایمان کے آئینہ دار ہوتے ہیں اس لیے مضبوط ایمان ہی ہماری بقا اور کامیابی کا سرچشمہ ہے۔ اگر ایمان کا فقدان ہو تو ہمارے کاموں سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ کیوں کہ ایمان کے بغیر ہمارے کسی بھی عمل کی حقیقت کچھ نہیں، وہ محض سراب ہے۔ ایمان قلب کا نور ہے جس کے بغیر تاریکی ہی تاریکی ہے۔