پاکستان

شرح سود میں اضافہ ٗ حکومتی قرضوں میں 300 ارب روپے سالانہ کا بوجھ پڑیگا

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) شرح سود میں اضافے سے حکومت کے قرضوں میں 300 ارب روپے سالانہ کا بوجھ پڑے گا۔ معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال میں 5 فیصد جی ڈی پی شرح نمو کے ہدف کا حصول ممکن نہیں ہے۔روزنامہ جنگ میں مہتاب حیدر کی خبر کے مطابق، زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کے شرح سود میں 150 بیسز پوائنٹس

کے اضافے سے وفاقی حکومت پر قرض ادائیگیوں کے حوالے سے سنگین اثرات مرتب ہوں گے اور حکومت پر 270 ارب روپے سے 300 ارب روپے سالانہ کا بوجھ پڑے گا۔ایک معروف ماہر اقتصادیات نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ شرح سود میں یہ اضافہ آئی ایم ایف مطالبات کے عین مطابق ہے۔ ملک بھر میں گیس بحران اور سخت زری پالیسی سے 5 فیصد جی ڈی پی شرح نمو کا حصول اب ایک خواب بن جائے گا۔ن لیگ نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں شرح سود میں 50 بیسز پوائنٹس سے زیادہ اضافہ نہیں کیا مگر پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے دوسرے فیز پر دوبارہ عمل درآمد شروع کردیا ہے، جس کے تحت سخت زری اور مالی پالیسیاں سامنے آئیں گی۔ حکومت اور نجی شعبے دونوں کے لیے قرضوں کے اخراجات مزید بڑھ جائیں گے۔ایسے وقت میں کہ جب حکومت بینکنگ شعبے سے قرضوں کے حصول کے لیے قرضہ فراہم کرنے والے کی تلاش میں ہے تو نجی شعبے سے حاصل سرمایہ میں مزید کمی واقع ہوگی۔ سی پی آئی بنیاد پر گرانی کو کنٹرول کرنے کے بجائے شرح سود میں اضافے سے مہنگائی کے دبائو

میں مزید اضافہ ہوگا جو کہ سی پی آئی کی بنیاد پر 1.5 سے 2 فیصد تک ہوسکتا ہے کیوں کہ مینوفیکچررز کے قرضوں کے اخراجات بھی بڑھیں گے جس کے نتیجے میں وہ اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کریں گے۔حکومت نے گزشتہ بجٹ کے موقع پر پارلیمنٹ کی منظوری سے حقیقی جی ڈی پی شرح نمو کا تخمینہ 4.8 فیصد لگایا تھا لیکن

شرح سود میں اضافے کے بعد رواں مالی سال 2021-22 جو کہ 30 جون 2022 کو ختم ہوگا میں 5 فیصد کے قریب جی ڈی پی شرح نمو کا حصول ممکن نظر نہیں آرہا۔ذرائع کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک نے گزشتہ ہفتے بنکوں کے لیے نقد ذخائر کی شرح (سی آر آر) میں کمی کی تھی، جس کے باعث بنکوں کی سیالیت 170 ارب روپے سے 200 ارب روپے کم ہوئی۔جب ہفتہ وار بنیاد پر ایس پی آئی

18 فیصد ہو تو سی پی آئی کی بنیاد پر مہنگائی دسمبر 2021 میں دوہرے ہندسے میں داخل ہوسکتی ہے۔ اس طرح حقیقی شرح سود منفی ہوجائے گی لہٰذا شرح سود میں مزید اضافے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ جب کہ اسٹیٹ بینک پہلے ہی شرح سود میں اضافے کا اعلان کرچکا ہے۔دوسرا کرنٹ اکائونٹ خسارہ اکتوبر، 2021 میں بڑھ کر 1.6 ارب ڈالرز ہوچکا تھا اور

موجودہ رفتار سے یہ 15 ارب ڈالرز تک پہنچ سکتا ہے۔ جی ڈی پی شرح کے لحاظ سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ میں پاکستان اسی صورت حال سے گزر رہا ہے جہاں وہ 2018 میں تھا، جب مجموعی کرنٹ اکائونٹ خسارہ 18 ارب ڈالرز تک پہنچ چکا تھا۔ملک کی جی ڈی پی کا حجم مجموعی طور پر کم ہوا ہے لہٰذا جی ڈی پی کے لحاظ سے صورت حال اسی طرح کی ہے۔ اس حوالے سے جب

معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھاکہ شرح سود میں اضافے کی کوئی اقتصادی وجہ نہیں ہے اور اس کی وجہ سے وفاقی حکومت کے قرضوں کی ادائیگی کے بل 300 ارب روپے سالانہ تک بڑھ جائیں گے، لیکن ایسا بھی اس صورت ہوگا جب شرح سود میں مزید اضافہ نہ کیا جائے۔ان کا مزید کہنا تھاکہ رواں مالی سال میں 5 فیصد جی ڈی پی شرح نمو کے ہدف کو بھول جانا چاہیئے کیوں کہ پاکستان کی عوام کے لیے اقتصادی سست روی اور مہنگائی میں اضافہ حقیقی مسائل بن چکے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ شرح سود میں اضافے سے سی پی آئی کی بنیاد پر مہنگائی میں آنے والے دنوں میں مزید اضافہ ہوگا۔

Ali Goher

Share
Published by
Ali Goher

Recent Posts

Best Crypto Exchange for Day Trading

5 best crypto exchange for day trading   Want to get high-profit volumes in crypto…

2 days ago

Robinhood Crypto Wallet

  Robinhood Crypto Wallet The Robinhood crypto wallet is a famous crypto wallet that stores…

4 days ago

حجامہ کئی بیماریوں کے علاج میں معاون ! لیکن کیسے؟

پاکستان (نیوز اویل)، حجامہ ایک قدیم طبی عمل ہے جس میں جسم کے مخصوص نقاط…

5 months ago