لاہور (ویب ڈٰیسک) ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اندازے کے مطابق پاکستان میں قندیل کی موت قتل کے بعد تقریباً 1100 خواتین کو اسی الزام کے ساتھ زندگی سے محروم کر دیا گیا۔ ان کے بارے میں یہ کہا گیا وہ اپنی حدود سے تجاوز کر رہی تھیں۔ ان کے تعلقات تھے، انھوں نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی یا شوہر سے جھگڑا تھا۔ اور ان واقعات میں ایسا بھی تھا کہ کچھ خواتین کے ایسا کرنے پر کسی کو محض شک تھا جس کی وجہ سے ان کی جان لے لی گئی۔ اگر ان کی کہانی اخبار میں چھپتی بھی تھی تو وہ اندر کے کسی صفحے پر کسی چھوٹے سے پیرا گراف میں۔ لیکن لاکھوں نے قندیل کی سرکشی دیکھی تھی۔ ان کے ناقدین کے مطابق ان کا انداز انتہائی برا تھا اور اس سے بھی برا یہ کہ انھیں کوئی پروا نہیں تھی۔ مذہبی سیاسی جماعت جمعیت عمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ’اس قسم کی عورتوں کی وجہ سے ہماری سوسائٹی میں بے شرمی اور گندگی پھیلتی ہے۔‘ شاہ صدر دین میں اب سکون ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کسی کی غیرت کھو جاتی ہے تو وہ اسے کسی بھی وقت واپس حاصل کر سکتا ہے۔ قندیل کے والدین نے مجھے بتایا کہ اس نے اپنے بھائی سے وعدہ کیا تھا کہ اسے بہت تھوڑا وقت درکار ہے اس کام کو چھوڑنے کے لیے جو وہ کر رہی ہے۔ اگر وسیم نے اسے موقع دیا ہوتا تو کیا وہ ان کی غیرت واپس لوٹانے کے لیے تعریف پا سکتی؟ معاشرتی اقدار سے روگردانی کرنے والوں کو سخت سزا دینے کی وجہ سے غیرت کے نام پر جرائم معاشرے میں مضبوطی پکڑتے جا رہے ہیں۔ جمعے کو عدالتی فیصلے نے ملزم اور ظلم کا شکار ہونے والے کے درمیان ایک لکیر کھینچی ہے۔ شاید اسی لیے ابھی ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے یہ ناکافی ہے۔ انصاف کا ایک متوازی نظام بھی موجود ہے، لوگوں کی رائے کی عدالت۔ اور وہاں یہ سوال موجود ہے: کہ قندیل کی موت میں معاشرہ کس قدر شریک ہے۔ منصف اب بھی باہر ہیں۔