راجستھان ہائی کورٹ کے جج مہیش چند شرما نے سی این این کے نیوز 18 سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘مور کی بھی خوبیاں ہیں، یہ عمر بھر کنوارا رہتا ہے۔ یہ کبھی بھی مورنی کے ساتھ نہیں کرتا، اس کے جو آنسو آتے ہیں، مورنی انھی چگ کر حاملہ ہو جاتی ہے اور مورنی یا مور کو جنم دیتی ہے۔’ دراصل ان سے انٹرویور نے پوچھا تھا کہ آپ نے اپنے فیصلے میں نیپال کا حوالہ کیوں دیا کہ وہاں گائے قومی جانور ہے، کیوں کہ نیپال ہندو ریاست ہے انڈیا سیکیولر ملک ہے۔
اس کا جواب دیتے ہوئے مہیش چند نے کہا کہ ‘اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ملک سیکیولر ہے یا ہندو ہے۔ کیوں کہ ہم نے تو مور کو بھی قومی پرندہ قرار دے رکھا ہے۔ حالانکہ آپ کہہ سکتے تھے کہ انڈیا سیکیولر ملک ہے۔’ اس کے بعد انھوں نے مور کی خوبیاں بیان کرنا شروع کر دیں۔ جج کے اس بیان پر سوشل میڈیا میں گرما گرم بحث شروع ہو گئی اور اکثر لوگوں نے ان کے اس خیال کی تردید کی ہے کہ مور سی کس نہیں کرتا۔
بعض لوگوں نے اس سلسلے میں موروں کے جوڑوں کی تصاویر بھی لگانا شروع کر دی ہیں۔ نایانیکا نامی ایک صارف نے ٹوئٹر پر لکھا: ‘وہ لوگ جو نہیں جانتے کہ مور جنسیتولید کے ذریعے بچے پیدا کرتا ہے، انھیں جج نہیں ہونا چاہیے۔ لگتا ہے وہ جلد ہی سپریم کورٹ کے جج بھی بن جائیں گے۔’ تحسین پونے والا نے ٹوئٹر پر لکھا: ‘آنریبل جج سر، امید ہے آپ نے انھی اداروں میں نہیں پڑھا ہو گا جن میں سرکاری وزیروں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ لیکن مور بھی یہ کام کرتے ہیں۔’ پون بالی نے کہا: ‘اب مجھے مور کے لیے افسوس ہو رہا ہے جو اپنے کندھوں پر دنیا کا اخلاقی بوجھ اٹھا رہا ہے۔’