“ہمیں حکومت سے کیوں نکالا سے لے کر ہمیں حکومت میں کیوں ڈالا تک کا تلخ سفر۔۔۔” جس نے مسلم لیگ نون کے لیے الگ ہی تاریخ رقم کر دی!

پاکستان (نیوز اویل)، پاکستان مسلم لیگ نون کے لئے ہمیں کیوں حکومت سے نکالا سے لے کر ہمیں کیوں حکومت میں ڈالا تک کا سفر بہت زیادہ تلخ رہا ہے ،
پاکستان مسلم لیگ پہلے صرف ایک ہی جماعت تھی اور

 

 

 

 

پھر انیس سو ستر تک سے یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہونا شروع ہوگئیں اور اب اس لیے بہت سے مسلم لیگیں موجود ہیں ،
مسلم لیگ نون نے جس کے لیے صدر ہر میاں نواز شریف بڑی کامیابی کے ساتھ کئی سالوں پاکستان پر حکومت

 

 

 

 

کی ہے ۔ مسلم لیگ نون کا قیام 1970 میں ہوا تھا اور اس کے عید میاں نواز شریف تھے جب کہ آج کل یہ جماعت میاں شہباز شریف کے زیر صدارت ہے ،
میاں نواز شریف کی بات کی جائے تو انہیں سیاست کی

 

 

 

کافی سمجھ بوجھ ہے اور یہی وجہ ہے کہ نواز شریف تین بار 1990ء تا 1993ء ،1997ء تا 1999ء اور آخری بار 2013ء تا 2017ء تک وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں اور اس کے علاوہ ایک مرتبہ نواز شریف وزیر اعلی پنجاب بھی بنے تھے ، 2017 تک ک تو

 

 

 

 

ان کی حکومت ہے لیکن اس کے بعد ان کی حکومت کو زوال آنا شروع ہو گیا اور ان کی مقبولیت میں کمی کی بڑی وجہ عمران خان بنا ، اور اس وقت مسلم لیگ نون کے حوالے سے یہ نعرہ بہت زیادہ مشہور ہوا تھا کہ ہمیں حکومت سے کیوں نکالا ،

 

 

 

 

عمران خان کے آتے ہی پوری نوجوان قوم میں اس کی مقبولیت بہت زیادہ بڑھ گئی تھی اور عمران خان نے چار سال وزیراعظم کی کرسی سنبھالی جس کے بعد مسلم لیگ نون اور اپوزیشن جماعتوں نے مل کر عمران

 

 

 

 

خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جس کے بعد عمران خان کو اپنی حکومت کی مدت پوری کرنے کے پہلے ہی وزیراعظم کی کرسی سے اتر جانا پڑا اور اس مرتبہ نوازشریف کی بجائے ان کے بھائی شہباز

 

 

 

شریف وزیراعظم پاکستان بننے کیوں کہ نواز شریف علاج کے سلسلے میں بیرون ملک گئے تھے اور ان پر کافی زیادہ کرپشن کے کیسز بھی چل رہے ہیں ، اس وجہ سے اس مرتبہ پارٹی کی صدارت شہباز شریف کے حصے میں آئی ،

 

 

 

لوگوں کا خیال تھا کہ شاید 2017 میں مسلم لیگ نون کا زوال کا زوال شروع ہو گیا تھا ، لیکن حقیقت میں مسلم لیگ نون کا اصل زوال عمران خان کو وزیراعظم کی کرسی سے اتارنے کے بعد شروع ہوا ،

 

 

 

 

عمران خان کے وزیراعظم کی کرسی سے اترنے کے بعد عوام میں ان کی مقبولیت پچھلے چار سالوں کی نسبت بہت زیادہ بڑھ گئی اور دوسری طرف مسلم لیگ نون کے لیے تحریک عدم اعتماد پیش کرنا بہت زیادہ مہنگا پڑ گیا ۔

 

 

 

 

مہنگائی تو عمران خان کے دور میں ہی شروع ہو گئی تھی لیکن مہنگائی کا پہاڑ شہباز شریف کے آنے کے بعد گرا ، نواز شریف صاحب چاہتے تھے کہ اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں اور دوبارہ سے الیکشن کرائے جائیں لیکن

 

 

 

 

شہباز شریف کو شاید یہ لگتا ہے کہ ان کو دوبارہ وزیر اعظم بننے کا موقع ملے یا نہ ملے وہ ابھی تو بن جائیں ، اور یہی وجہ ہے کہ آج مسلم لیگ نون کی مقبو لیت وہ بہت کم ہو گئی ہے ڈالر روز بروز مہنگا ہوتا جا رہا ہے اور عام آدمی کے لئے دو وقت کی روٹی پوری کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے ۔

 

 

 

 

اب ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ نون یہ دہائیاں دے رہی ہو کہ مجھے حکومت میں کیوں ڈالا ۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر

 

 

 

مسلم لیگ نون اگلے الیکشن میں کامیابی چاہتی تھی تو ان کو چاہئے تھا کہ کہ تحریک عدم اتحاد کے کامیاب ہونے کے بعد یہ فوری طور پر اسمبلیاں تحلیل کرتے اور نئے الیکشن کرواتے ،

 

 

 

مسلم لیگ نون کی بچی کچی سانسوں میں آخری کیل اس وقت ٹھوکا گیا جب ان کو ضمنی الیکشن میں بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے فوری بعد ہی حمزہ شہباز شریف جو کہ وزیر اعلی پنجاب بن گئے تھے ان کو دو مرتبہ وزیر اعلی کی کرسی سے ہاتھ دھونا پڑا۔

 

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *