اگر خاندان اور خ ۔و ۔ن کی پہچان کرنی ہو تو کیسے کی جا سکتی ہے!!!

پاکستان (نیوز اویل)، سلطان محمود غزنوی ایک بادشاہ تھا اور اس کا ایک وزیر ایاز تھا جو کہ سلطان محمود غزنوی کے ساتھ بہت ہی زیادہ مخلص تھا اور سلطان اس وزیر سے ضرور مشورہ لیا کرتا تھا۔

 

 

ایک مرتبہ سلطان محمود غزنوی کا دربار لگا ہوا تھا تو سلطان نے ایک ایسی فرمائش کر ڈالی کہ سب حیران رہ گئے۔

سلطان محمود غزنوی نے دربار میں یہ کہا کہ کون ایسا شخص ہے جو اسے حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کروا سکتا ہے سلطان کی اس بات کو سن کر تمام درباری خاموش ہو گئے کیونکہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے اور اگر کوئی جھوٹ بولتا ہے

 

 

تو اس کا سر ق ل م کر دیا جاتا لیکن ایسے میں پیچھے سے ایک شخص کی آواز آتی ہے کہ وہ ایسا کر سکتا ہے اور وہ ایک انتہائی غریب شخص ہوتا ہے وہ شخص سلطان محمود غزنوی کے سامنے حاضر ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ ایسا کر سکتا ہے

 

 

 

اگر اس کی ایک شرط مان لی جائے سلطان کہتا ہے کہ اس کی ہر شرط مانی جائے گی تو وہ کہتا ہے کہ بادشاہ سلامت میں بہت ہی غریب انسان ہوں اور میرے گھر کی کفالت میرے سوا اور کوئی نہیں کرنے والا میں آپ کا یہ کام کر سکتا ہوں

 

 

لیکن اس کے لیے آپ کو میرے گھر والوں کی کفالت کرنی ہوگی یہ کام کرنے کے لیے دریا کے کنارے چ ل ا کاٹنا ہوگا اور وہ چھ ماہ تک کرنا ہوگا میں چھ ماہ تک دریا کے کنارے چ ل ا کاٹوں گا اور آپ 6 ماہ تک میرے گھر والوں کی کفالت کریں گے ۔

 

 

 

اس کی یہ بات سن کر سلطان محمود غزنوی نے اس کی یہ شرط مان لی اور وہ شخص دریا کے کنارے چلا گیا چھ ماہ گزر گئے تو سلطان نے اس شخص کو دربار میں حاضر کرنے کا حکم دیا جب اسے دربار میں حاضر کیا گیا

 

 

تو اس شخص کا کہنا تھا کہ کچھ عمل غلط ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے اسے چھ ماہ کا اور ٹائم لگے گا اور اس کے بعد یہ چ ل ا پورا ہو گا وہ شخص کو دوبارہ دریا کے کنارے پہنچا دیا جاتا ہے ہے مزید چھ ماہ گزر جانے کے بعد جب اس کو سلطان کے دربار میں دوبارہ حاضر کیا جاتا ہے

 

 

اور اس سے پوچھتے ہیں کہ اب بتاؤ تو وہ شخص سلطان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے آپ سے جھوٹ بولا تھا میرے گھر والے بھوک سے مر رہے تھے اور میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا

 

 

کہ میں اس طرح جھوٹ بول کر ان کی کفالت کروں سلطان محمود غزنوی انتہائی غصے میں آ جاتے ہیں اور آپ نے ایک وزیر سے کہتے ہیں کہ یہ شخص کی سزا بتاؤ کس نے اتنا بڑا جھوٹ بولا ہے تو وہ یہ کہتا ہے کہ اس شخص کو کتوں کے آگے ڈال دیا جائے کیوں کہ اس کے لیے یہی بہتر ہے کہ یہ بادشاہ سلامت سے جھوٹ بولنے کا مزہ چکھ سکے ۔

 

 

اس کے بعد سلطان محمود غزنوی دوسرے وزیر سے پوچھا ہے کہ تم بتاؤ اس شخص کے ساتھ کیا کرنا چاہیے تو کہتا ہے کہ اس کا سر ق ل م کر دیا جائے کیونکہ اس نے بادشاہ کو دھوکہ دیا ہے اور سب کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی ہے ۔

 

 

اس کے بعد سلطان اپنی سب سے عزیز اور سب سے قریبی وزیر ایاز سے پوچھتا ہے کہ ایاز تم بتاؤ اس شخص کے ساتھ میں ایسا کیا کروں کہ اس کے جھوٹ کی سزا مل جائے تو ایار بادشاہ سلامت کے سامنے جھک کر کہتا ہے

 

 

کہ بادشاہ سلامت اس شخص کو معاف کر دیا جائے کیونکہ شخص نے مجبوری میں ایسا کیا ہے اور آپ کے لئے اس سے بڑھ کر کیا بات ہو گی کہ آپ نے ایک شخص کے غریب خاندان کی ایک سال تک کفالت کی ہے اور اللہ کے نزدیک کتنا اجر کمایا ہے ۔

 

 

سلطان محمود غزنوی جب بھی ایک وزیر سے یہ سوال کر رہے ہوتے تو اس وقت دربار میں ایک بزرگ کہتے کہ سلطان یہ وزیر بالکل صحیح کہہ رہا ہے آپ کو ایسا ہی کرنا چاہیے ۔ جب سلطان اپنے تین وزیروں سے سوال کرتا ہے اور وہ لوگ اپنی اپنی رائے دے رہے ہوتے ہیں تو ہر دفعہ اس بزرگ کا یہی جواب ہوتا ہے

 

 

کہ سلطان یہ وزیر صحیح کہہ رہا ہے ۔ بادشاہ سلامت اس کی طرف متوجہ ہو کر اس بزرگ سے کہتے ہیں کہ تم نے تین وزیروں کے مشوروں پر یہ کہا ہے کہ یہ وزیر صحیح کہہ رہے ہیں تو تمہارا اس سے کیا مطلب ہے تم نے ان تینوں کی باتوں میں ہاں میں ہاں کیوں ملائی تو وہ درویش بزرگ سلطان محمود غزنوی سے کہتے ہیں

 

 

کہ بادشاہ سلامت تین وزیروں نے ہی اپنے اپنے لحاظ سے صحیح جواب دیا ہے پہلے وزیر نے کہا کہ ایسے کتوں کے آگے ڈال دیا جائے تو وہ وزیر کا خاندان بادشاہوں کے کتے نہلاتا رہا ہے تو اس کا یہ جواب دینے میں خود کا کوئی قصور نہیں ہے کہ اس جھوٹ بولنے والے شخص کو کتوں کے آگے ڈال دیا جائے ،

 

 

اس کے بعد آپ کے دوسرے وزیر نے کہا کہ اس کا سر قلم کر دیا جائے تو وہ دوسرا وزیر قصائیوں کے خاندان سے ہے اور وہ آپ کو اسی طرح کا مشورہ دے سکتا ہے ، اور پھر آپ کے تیسرے وزیر یعنی ایاز نے یہ کہا کہ شخص کو معاف کر دیں تو ایاز سیدوں کے خاندان سے ہے اور سید کبھی بھی کسی سے بدلہ نہیں لیتے بلکہ معافی دے دیتے ہیں ۔

 

 

بزرگ کے یہ کہنے پر بادشاہ سلامت بہت حیران ہو گئے اور انہوں نے ایاز سے کہا کہ تم نے آج تک مجھے کیوں نہیں بتایا کہ تم سید خاندان سے ہو تو ایاز مسکرا دیا اور کہا کہ میں نے آج تک کسی کو یہ نہیں بتایا کہ میں سید خاندان سے ہوں لیکن آج ان بزرگ نے یہ بتا دیا ہے تو میں بھی آج پورے دربار کے سامنے بتاتا ہوں کہ یہی

 

 

بزرگ حضرت خضر علیہ السلام ہیں ۔ بادشاہ سلامت کا یہ سننا تھا کہ انہوں نے اس غریب شخص کو معاف کر دیا اور اس کے خاندان کی کفالت کا ذمہ خود لے لیا۔

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *