اگر تم یہی کرنا چاہتے ہو تو ملک فوج کے حوالے کرو اور۔۔۔۔۔۔

پاکستان (نیوز اویل)، جاوید چوہدری ایک مشہور اور سینئر کالم نگار ہیں اور وہ اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ وہ مرحوم الطاف گوہر سے ملتے تھے الطاف گوہر ایک بیوروکریٹ تھے ،جاوید چودھری کرتے ہیں

 

 

 

کہ ایک مرتبہ میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور گفتگو جاری تھی کہ ہماری بات انیس سو اکتر کی ج ن گ کی طرف چلی گئی ، تم اس حوالے سے بات کرتے کرتے میں نے الطاف گوہر صاحب سے کہا کہ آپ لوگ تو اس وقت ملک کو بچانے کے لئے کچھ کر سکتے تھے

 

 

 

آدھا ملک ہمارے ہاتھ سے چلا گیا آپ لوگ تو سیاست دانوں کو سمجھا سکتے تھے ، تو اس پر پر الطاف گوہر صاحب بہت زیادہ افسردہ ہو گئے پھر بہت دیر تک خاموش رہنے کے بعد انہوں نے کہا کہ جاوید ہماری تو مت ماری گئی تھی

 

 

 

ہمیں اس وقت سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا نہیں ہو رہا ہم لوگ عجیب کشمکش کا شکار تھے اور جب ہوش آیا تو آدھا ملک ہاتھ سے جا چکا تھا اور اور ہمارے پاس بچانے کے لیے کچھ نہیں بچا تھا

 

 

 

انہوں نے کہا کہ جاوید یاد رکھنا جب مت ماری جائے تو اس وقت کچھ سمجھ نہیں آتا اس وقت آپ کو کچھ دکھائی نہیں دیتا آپ کی آنکھیں دیکھنا بند ہوجاتی ہیں اور کام سننا بند کر دیتے ہیں ،

 

 

تو جاوید چوہدری کا کہنا ہے کہ آج میں سوچ رہا ہوں کہ انیس سو اکتر تو چلا گیا لیکن آج پھر سے انیس سو اکتر والی صورتحال سامنے آ گئی ہے ، سب کی مت ماری گئی ہے کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا

 

 

 

ملک تیزی سے نیچے گرتا جا رہا ہے اور ہم لوگ دیکھتے جا رہے ہیں لیکن سمجھ میں نہیں آ رہا کرنا کیا چاہیے کدھر کو مدد کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور کس کو سمجھائیں ۔ وہ

 

 

مزید لکھتے ہیں کہ ایک جہاز کی سی کیفیت ہے جو کہ گرتا جا رہا ہے ہر کوئی اپنی اپنی گردن بچانے میں لگا ہوا ہے ہر سیاست دان صرف اپنا فائدہ دیکھ رہا ہے کسی کو فلحال ملک کی حالت ہی نظر نہیں آرہی

 

 

 

بقول الطاف گوہر صاحب سب کی مت ماری گئی ہے ، لیکن یہ بھول گئے ہیں کہ اگر یہ جہاز گر جاتا ہے تو صرف عوام ہی نہیں ماری جائے گی بلکہ یہ لوگ بھی بیچ میں ہی ہوں گے ۔

 

 

 

وہ لکھتے ہیں کہ اگر سیاستدانوں سے ملک نہیں سمبھالا جا رہا تو وہ ملک کو فوج کے حوالے کر دیں تو کم از کم ملک میں استحکام تو آ جائے گا ، حالات کچھ بہتر ہو سکیں گے اور ملک دیوالیہ ہونے سے بچ جائے گا۔

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *