ایک بار جب ازواج مطہرات آپﷺ سے مال مال کا مطالبہ کررہی تھیں آپﷺ خاموش تھے

پاکستان (نیوز اویل)، ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ازواج مطہرات سے بہت زیادہ محبت فرماتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بہت زیادہ شفقت سے پیش آتے تھے اور ان کی خواہشات کا احترام کرتے تھے ،

 

 

 

وہ اگر ناراض ہو جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مناتے تھے تھے اور اس میں کوئی بھی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔

 

 

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے میں موجود تھے اور آپ کی ازواج مہطرات بھی آپ کے ساتھ موجود تھیں اور حضرت عمر اور حضرت ابوبکر صدیق باہر بیٹھے تھے

 

 

 

جن کو پہلے اندر آنے کی اجازت نہیں ملی لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اندر آنے کے لیے پیغام بھیجا تو وہ اندر جا کر دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات ان کے اردگرد بیٹھی ہیں

 

 

 

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے ہیں حضرت عمر کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ آج میری بیوی نے مجھ سے مطالبہ کر دیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ کیا مطالبہ کردیا ہے

 

 

 

جس پر آپ نے بتایا کہ اس نے مجھ سے مال کا مطالبہ کردیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزید ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ یہاں پر بھی یہی معاملہ چل رہا ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وعلی وسلم کی یہ بات سن کر

 

 

 

حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر بہت زیادہ غصے میں آگئے اور اپنی صاحبزادیوں کی طرف لپکے تاکہ ان کو ڈانٹے گے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کا مطالبہ کیوں کیا ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو روک دیا۔

 

 

 

 

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ ایک مرتبہ قافلہ کے ساتھ جا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود تھے تو اس وقت میں نے جو ہار پہنا ہوا تھا وہ ہار گئی ہو گیا

 

 

 

اور میں نے ضد کی کہ مجھے وہ ہار چاہیے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قافلہ رکوادیا اور اونٹ بیٹھا دیے گئے اور سب ہار ڈھونڈنے لگے۔

 

 

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ہار نہیں مل رہا تھا اور نماز کا وقت ہوگیا جس پر کچھ لوگوں نے میرے والد سے جاکر میری شکایت کی کہ میری وجہ سے یہ ساری مصیبت آن پڑی ہے کیونکہ اس جگہ پر پانی موجود نہیں تھا اور نماز کے لیے وضو کا مسئلہ آن پڑا تھا ۔

 

 

 

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ میرے والد میرے پاس آئے اور انتہائی غصے میں آئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت سو رہے تھے اور ان کا سر میری پنڈی پر تھا اور میرے والد نے آکر مجھے ڈانٹا اور اور مجھے

 

 

 

میری وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے لیکن میں بالکل بھی نا ہلی کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیند میں خلل پیدا نہ ہو جائے، تو اس موقع پر اللہ تعالی نے تیمم کی آیت نازل فرمائی تھی ، اور وہاں پر موجود سب لوگوں نے اس پر عمل کیا

 

 

 

اور پھر کیا دیکھتے ہیں کہ جو اونٹ قافلہ واپس جانے کے لیے کھڑا کیے گئے اسی اونٹ کے نیچے سے وہ ہار مل گیا ۔ یعنی یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہی ایک سبب بنا تھا تھا تاکہ وہ آیات نازل کی جاسکتی ۔

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *