حضرت آسیہ علیہ السلام کا واقعہ

جس وقت حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے حاکم بنے تھے تو آپ علیہ السلام کے والد محترم حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے باقی بیٹوں کے ساتھ ہی مصر میں آ گئے تھے

 

 

 

اور مصر میں ایک علاقہ گوشن ہے اس علاقے میں آباد ہو گئے تھے ۔ اور ان کو ہی بنی اسرائیل کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ فرعون ” رعمسیس دوم Ramases II ” کو اس وقت نجومیوں نے یہ بتایا تھا کہ

 

 

 

” بنی اسرائیل میں سے ﷲ تعالیٰ کا ایک نبی پیدا ہو گا اور وہی اللہ تعالی کا نبی ہو گا جو اس وقت تمہارے اقتدار کا خاتمہ کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ پیشگوئی کی کہ اسی نبی کے ہاتھوں تمہاری موت واقع ہو گی ،

 

 

 

فرعون کو جب یہ بات پتہ چلی تو اس نے اِس خطرے سے بچنے کے لیے کہ کہی اس کا اقتدار ختم نہ ہو جائے اور اس کی م و ت واقع نہ ہو جائے اس کے یہ طریقہ استعمال کیا کہ بنی اسرائیل کو ہی اپنا غلام بنا لیا اور اس کے یہ کرنا شروع کیا

 

 

کہ جب بھی بنی اسرائیل میں سے کسی کے گھر بیٹا پیدا ہوتا اس بچے کو ق ت ل کر وا دیا جاتا اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جاتا اور اس بات کا ذکر قرآن مجید میں سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 49 میں کیا گیا ہے ۔

 

 

 

اُسے معلوم نہ تھا کہ اﷲ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ’’حضرت موسیٰؑ کی والدہ کو یہ تسلی بھی دی گئی کہ’’ ہم اِس بچے کوتمہارے پاس لوٹا دیں گے اور اِسے اپنے رسولوں میں سے بنائیں گے۔‘‘ (سورۂ قصص:7)

 

 

ایار خا نے اﷲ کے حکم کی پیروی کی ، ساتھ ہی اپنی بڑی بیٹی کلثمہ یعنی ” موسیٰ کی بہن سے کہا، اِس کے پیچھے پیچھے چلی جاؤ ، چنانچہ وہ صندوق کو دور سے دیکھتی رہیں ” ( سورت قصص:11 )

 

 

جب بچے والا صندوق دریائے نیل کے بہاؤ پر بہتا ہوا فرعون کے محل تک جا پہنچا تو فرعون کی بیٹی اور باندیاں اُسے دیکھ کر بہت حیران و پریشان ہوئیں اور انہوں نے اِسے دریا سے نکال کر فرعون کی بیوی ملکہ آسیہ کے سامنے پیش کر دیا

 

 

 

جب فرعون کی بیوی آسیہ نے صندوق کا ڈھکن کھولا تو وہ حیران رہ گئی اور اس صندوق میں ایک خوبصورت بچہ دیکھ کر بہت زیادہ خو ش ہوئیں ، اور فوراً سے اس خوبصورت سے بچے کو اپنے پاس رکھ کر اس کی

 

 

پرورش کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ جب فرعون کو علم ہوا تو اس نے اس بچے کو قتل کرنے کا حکم دے دیا تو ملکہ آسیہ آڑے آ گئیں اور کہا فرعون کو کہا کہ یہ بچہ میری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اس کو قتل نہ کرو ، اور ہو سکتا ہے یہ ہمیں فائدہ پہنچانے کا باعث بنے یا ہم اسے بیٹا ہی بنا لیں اس کا ذکر سورۃ قصص کی آیت نمبر 9 میں آیا ہے ۔

 

 

 

فرعون نے اپنی بیوی کو کہا ” مجھے اِس کی ضرورت نہیں لیکن ہو سکتا ہے تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک بن جائے اور اِس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جان بچ گئی

 

 

 

ملکہ آسیہ کا تعلق بھی بنی اسرائیل سے ہی تھا ، اور وہ دور کے رشتے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پھوپھی بھی لگتی تھیں چنانچہ فرعون کو انجام تک پہنچانے والا بچہ بنی اسرائیل کے ہاں پیدا ہو کر رہا اور اس کی پرورش خود فرعون کے محل میں ہو ئی ،

 

 

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام عمران اور والدہ کا ایارخا ( اِس نام کو یوکبد بھی کہا جاتا ہے)تھا جب آپ علیہ السلام کی پیدائش کا وقت قریب آیا تو ان کے والدین کو ڈر تھا کہ ظالم فرعون اُن کے بچے کو پیدا ہوتے ہی ختم کر دے گا۔ آپ علیہ السلام کی والدہ کو ﷲ کی طرف سے پہلے ہی وحی آگئی

 

 

’’بچے کو دودھ پلانا اور جب اُس کی جان کو خطرہ ہو تواُسے دریا میں ڈال دینا اور ڈر یا اندیشہ نہ رکھنا (سورئہ قصص:7)

 

 

پھر اِرشاد ہوا کہ
’’اِس نو مولود کو صندوق میں رکھو، صندوق کو دریا میں ڈال دو تو دریا اِسے کنارے پر ڈال دے گا،پھر اِس صندوق کو میرا اور تمہارا دشمن (فرعون ) اُٹھا لے گا ‘‘(سورئہ طٰہٰ:93)

 

 

 

حضرت آسیہ ؑنے اﷲ سے دعامانگی ’’اے میرے پروردگار! میرے لیے اپنے ہاں جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے بُرے عمل سے نجات بخش دے اور مجھے ظالم قوم سے چھٹکارا دِلا دے۔‘‘ (سورئہ تحریم:۱۱)

 

 

روایات میں آیا ہے کہ حضرت موسی ٰ ؑیہ دلدوز منظر دیکھ رہے تھے اُنہوں نے بھی دُعا مانگی’’اے اﷲ !رنج ودرد آسیہ سے اُٹھا لے‘‘۔

 

اﷲتعالیٰ نے فرشتے بھیجے جنہوں نے حضرت آسیہؑ پراپنے پروں کا سایہ کیا،پھراُنہیں جنت میں محل دِکھایا ،وہ مسکرائیں اور اﷲ نے اُن کی روح کو اپنی طرف اُٹھا لیا۔ حضرت آسیہؑ کا شمار جنت کی سب سے زیادہ فضیلت رکھنے والی خواتین میں ہوگا۔

 

 

قرآنِ مجید کی سورئہ تحریم میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے دو پاک نبیوں حضرت نوحؑ اور حضرت لوط ؑکی بیویوں کی مثال بیان کی جو نیک بندوں کی بیویاں ہونے کے باوجود کافر رہیں اورجہنم کا ایندھن بنیں گی۔

 

 

 

ان کے ساتھ دو پاک دامن بیبیوں کا ذکر فرمایا جو اپنی اُمت کی مومنہ عورتوں کی سُرخیل ہوں گی ان میں سے ایک تو فرعون کی بیوی آسیہ ؑ جو فرعون جیسے کافر اور اﷲ کے نافرمان کی بیوی ہونے کے بادجود اﷲ پر ایمان لائیں تھیں اور جنت کی حق دار قرار پائیں تھیں تو دوسری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ محترمہ مریم بنت عمران شامل ہیں ۔

 

 

جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک طویل جدو جہد کے بعد غالب آئے تو اس وقت فرعون رعمسیس ثانی زندہ نہیں تھا لیکن اُس کا بیٹا منفتاح ثانی فرعون بن چکا تھا اور وہی اپنے لشکر سمیت دریائے نیل میں غرق ہوا تھا

 

 

 

اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دودھ پلانے کے حوالے سے قرآن پاک میں جو ذکر ہوا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ
” ہم نے موسیٰ پر دائیوں کے دودھ حرام کر دئیے(سورئہ قصص:12)

 

 

محل والوں نے ایسی عورت کی تلاش شروع کر دی جس کا دودھ اِس بچے کو موافق آ جائے۔ تب موسیٰؑ کی بہن سامنے آ گئیں اور کہا’’کیا میں تمہیں ایسے اہل خانہ کی خبر نہ دوں جو تمہارے لیے اس بچے کو پالیں؟‘‘( سورئہ قصص: 12)

 

 

ایارخا آئیںاور موسیٰؑ لپک کر اُن سے چِپک گئے۔ اِس طرح اللہ کے حکم سے وہ اپنے ہی بچے موسیٰؑ کی دایہ بن گئیں،اُن کے اور اُن کے کنبے کے لیے شاہی وظیفے مقرر ہو گئے ۔

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *