پھٹکری کے ایسے جادوئی کمالات جن سے آپ واقف نہیں۔۔۔

پاکستان (نیوز اویل)، پھٹکری کے ایسے جادوئی کمالات جن سے آپ واقف نہیں
۔
پھٹکڑی اب زیادہ استعمال میں آتی ہوئی دیکھی نہیں جاتی۔ البتہ لوگ شیو کروانے کے بعد پھٹکڑی کو چہرے

 

 

 

پر ملتے ہیں تاکہ جراثیم سے بچا جا سکے۔ پھٹکڑی استعمال نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو اس کی افادیت کا اندازہ ہی نہیں۔ یہ باآسانی مارکیٹ میں دستیاب ہوتی ہے اور طبی افادیت کی حامل ہوتی ہے۔ یہ عام طور پر پاؤڈر یا ٹکڑوں کی صورت میں دستیاب ہوتی ہے۔

 

 

 

پرانے دور میں لوگ اس کو روٹین میں استعمال کرتے تھے۔ لیکن آج کل اکثر لوگ اس کے نام سے واقف بھی نہیں۔ اس لئے انہیں معلوم ہی نہیں کہ پھٹکری کے کس قدر جادوئی فوائد ہیں۔

 

 

 

چہرے پر کیل مہاسے سے اور دھبے آج کل بہت عام ہو گئے ہیں۔ پھٹکری کے استعمال سے ان سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ پھٹکڑی کو پیس کر اس کا پاؤڈر بنا لیں اور پھر اسے پانی میں ملا کر پیسٹ بنالیں۔ اس

 

 

 

 

پیسٹ کو روزانہ بیس منٹ کیلئے چہرے پر لگائیں اور پھر چہرہ دھو لیں۔ اگر اس کی وجہ سے آپ کے چہرے پر خارش یا جلن محسوس نہیں ہوتی تو پھر یہ ٹوٹکا آپ کے لئے نہایت آزمودہ ثابت ہوگا۔

 

 

 

 

جوں جوں عمر میں اضافہ ہوتا ہے، انسان کی جلد ڈھلکنے لگتی ہے اور جلد پر جھریاں آجاتی ہیں۔ جھریوں سے نجات بھی پھٹکڑی کا پیسٹ چہرے پر لگانے سے

 

 

 

حاصل کی جاسکتی ہے۔ روزانہ 30 منٹ کے لئے پھٹکڑی کے پاؤڈر کو پانی میں ملا کر پیسٹ بنا کر چہرے پر لگائیں اور پھر دھو لیں تو جلد چمکدار اور جھریوں سے پاک ہوجائے گی۔

 

 

 

 

جلد کو تروتازہ بنانے کے لیے پھٹکڑی کو چہرے پر ملیں، اور پھر آہستہ آہستہ مساج کرنے کے بعد چہرے کو عرق گلاب سے دھولیں۔

 

 

 

اگر شیمپو میں ایک چٹکی نمک اور پھٹکڑی کا پاؤڈر ڈال کر اس سے بال دھوئے جائیں تو بالوں کی خشکی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

 

 

اگر کسی کے بالوں میں جوئیں بن جائیں تو اسے چاہیے پھٹکڑی کے پاؤڈر کو تھوڑے سے پانی اور تیل میں ملا کر سر پر اس کا مساج کر لے، تھوڑی دیر یوں ہی چھوڑ دینے کے بعد بال دھو لے تو جوئیں ختم ہو جاتی ہیں۔

 

 

 

 

اگر ایڑیاں پھٹی ہوں تو ان کو ٹھیک کرنے کے لئے بھی پھٹکڑی لگائی جاسکتی ہے۔ پھٹکڑی کے استعمال سے بدبو سے نجات بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔

 

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *