جب ایک عیسائی بادشاہ نے سوال پوچھا کہ زمین کا ایسا کون سا حصہ ہے جہاں دنیا کے قیام سے آخرت تک صرف ایک مرتبہ سورج کی روشنی پڑی ہے۔ نہ اس سے پہلے کبھی یہ روشنی پڑی تھی اور نہ آئندہ کبھی پڑے گی، اس سوال پر خلیفہ نے حضرت عبداللہ کو اپنے دربار پر بلا کہ پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ۔۔

پاکستان (نیوز اویل )، جب کسی ایک عیسائی بادشاہ نے سوال پو چھا کہ زمین کا ایسا وہ کون سا حصہ ہے ، جہاں دنیا کے قیام سے لے کر آخرت تک صرف و صرف

 

 

 

 

ایک مرتبہ ہی سورج کی روشنی پڑی ہے ۔ اور نہ اس سے پہلے کبھی سورج کی روشنی پڑی تھی اور نہ ہی آئندہ کبھی پڑے گی ، تو اس سوال پر خلیفہ دوم نے

 

 

 

 

حضرت عبداللہ کو اپنے دربار پر بلا لیا ، یاد رہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس کو دربار میں بلایا گیا تھا اس کی وجہ ان کا علم و فضل تھا جس میں انکا بہت زیادہ

 

 

 

 

مقام و مرتبہ ہوا کرتا تھا تو جب خلیفہ دوم نے عیسائی بادشاہ کے سوال کو دہرایا تو حضرت عبداللہ بن عباس نے بغیر کچھ سوچے جواب دیا کہ زمین کا وہ حصہ

 

 

 

 

جہاں سورج کی کرنیں صرف ایک مرتبہ پڑی ہیں وہ ” بحرہ قلزم ” کی تہہ ہے اور یہ وہی جگہ ہے جہاں پر فرعون غرق ہوا تھا ۔

 

 

 

 

اور انہوں نے مزید بتایا کہ جس حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو بچانے کے لئے سمندر میں عصا مارا تو سمندر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا

 

 

 

 

اس وقت اللہ پاک کے حکم سے سورج نے بہت جلد اس حصے کو سکھا دیا تھا تاکہ حضرت موسیٰ اور ان کے پیروکار یہاں سے آرام سے گزر جائیں اور

 

 

 

 

جب حضرت موسیٰ اپنے ماننے والوں سمیت گزر گئے تو انہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے دوبارہ سمندر میں عصا مارا تو سمندر وہاں سے مل گیا اور اس وقت میں صرف اس جگہ سمندر کی تہہ پر سورج کی روشنی پہنچی جہاں سمندر الگ ہوا تھا

 

 

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *