ایک دن بعد ہنستے ہوئے تصویر ڈالی اور وہی شرٹ یاسر نے پہن لی کچھ سمجھ نہیں آیا ۔۔ صارفین نے مینار پاکستان واقعہ پر سوالات اٹھا دیے

اس وقت مینار پاکستان کے گریٹر اقبال پارک میں ہونے والے شرمناک واقعہ پر تبصرے ہر طرف جاری ہیں اور صارفین کے تبصرے اور سوالات بھی توجہ کا مرکز بن رہے ہیں۔

سوشل میڈیا صارفین وائرل ہونے والی ویڈیو پر برہمی کا اظہار کر رہے تھے اور ان 400 افراد کو سرعام پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن اگلے ہی روز مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون عائشہ اکرم پر ہی صارفین شک و شبہات کا اظہار کرنے لگے۔ آخر انہیں ایسا کیا محسوس ہوا آج ہم جانیں گے۔

صارفین نے پہلا سوال یہ کیا کہ جس دن یہ واقعہ پیش آیا اسی روز ایف آئی آر کیوں نہیں درج کروائی گئی۔ صارفین نے دوسرا سوال یہ اٹھایا کہ 14 اکست کو پیش آنے والے واقعے کے اگلے روز عائشہ اکرم کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک ہنستی مسکراتی تصویر شئیر کی گئی اور 18 اگست کو نجی ویب سائٹ کے میزبان یاسر شامی کو انٹرویو دیا۔

سوشل میڈیا صارفین نے تیسرا سوال یہ اٹھایا کہ جس دن عائشہ کی جانب سے 15 اکست کو اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر تصویر شئیر کی گئی اور اس میں جو قمیض انہوں نے زیب تن کی ہوئی تھی وہی شرٹ یاسر شامی نے کیوں پہن رکھی تھی؟

اس کیس کی گتھی سلجھنے سے قبل ہی اتنا الجھ گئی کہ اس کے پیچھے اصل حقائق بھی سامنے نہ لائے جا سکے تاہم پولیس نے کچھ ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔

صارفین یہ بھی کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ یہ سب معاملہ پلان کے مطابق اور پبلسٹی حاصل کرنے کے لیے تھا اور سارا ڈرامہ عائشہ اکرم کے کو پارٹنر ”ریمبو“ کا کیا دھرا ہے۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو منظر عام پر آئی ہے وہ یہ کہ جس میں بزرگ میاں بیوی کا یہ کہنا ہے کہ جس گھر لوگ ملنے جا رہے ہیں وہ تو اسے جانتے ہی نہی، نہ کبھی نام سنا، نہ ہی کبھی دیکھا ، اس لڑکی نے ہمیں منہ دکھانے لائق نہیں چھوڑا۔

سید مزمل نامی ایک صارف لکھتے ہیں کہ ایسا ہوتا ہے پرینک کچھ سیکھو ان سے پرینکسٹر۔

رانا نامی ایک اور صارف نے لکھا کہ یہ تصویر جس وقت انہوں نے پوسٹ کی اس وقت انہیں صدمے میں ہونا چاہیے تھا۔

ٹک ٹاکر عائشہ اکرام پر برہمی کا اظہار کرنے والے ایک اور صارف لکھتے ہیں کہ اس ویڈیو کو غور سے دیکھیں پھر آپ سمجھ جائیں گے کہ اصل معاملہ کیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *