اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ویسے تو ہر لڑکی کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی شہزادہ آئے اور اسے اپنے ساتھ لے جائے، ہو سکتا ہے آپ میں سے بہت نے یہ کہانی سنی ہو، اور کئی نے یہ کہانی سینڈریلا کی صورت میں دیکھی ہو۔ کس طرح پاکستان کی ایک عام لڑکی اردن کی شہزادی بن گئی۔ اور پھر اردن سے بارات کراچی آئی۔ ہماری ویب کی رپورٹ کے
مطابق اردن کے شہزادے کا دل جیتنے والی اور اسے اپنی زلفوں کا اسیر بنانے والی پاکستان کی اس لڑکی کی نام سروت الحسن 24 جولائی 1947 کو اکرام اللہ خان کے ہاں پیدا ہوئی تھیں۔ سروت کا تعلق ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں، پاکستان کی آزادی کے وقت وہ بھارت سے یہاں آگئی تھیں۔ ثروت الحسن کے والد اکرام اللہ خان قائد اعظم کے ساتھ پارٹیشن کمیٹی کا حصہ تھے، اور پھر پاکستان بننے کے بعد وہ پہلے سیکریٹری خارجہ بنے، فرانس پرتگال اور برطانیہ کے سفیر بھی رہے تھے جبکہ والدہ بیگم ڈاکٹر شائستہ اردو کی مصنفہ تھیں۔ اس کے علاوہو پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کی رکن، تحریک پاکستان کی رکن اور سفارتکار تھیں۔ ثروت کو والدین کی جانب سے اعلٰی تعلیم کے لیے آکسفارڈ یونی ورسٹی بھیجا گیا تھا، یہ وہ وقت تھا جب ثروت اپنی پڑھائی کو مکمل کر رہی تھیں، تب ہی ان کی ملاوات اردن کے شہزادے حسن بن طلال سے ہوئی تھی۔ حسن بن طلال بھی عمان میں 1947 ہی کو پیدا ہوئے تھے، اس طرح دونوں ہم
عمر تھے۔ دونوں ایک دوسرے کی شخصیت سے متاثر ہوئے تھے۔ حسن بن طلال کو عربی، انگریزی، ہسپانوی زبان پر عبور حاصل تھا، ثروت اور حسن کی دوستی اس حد تک گہری ہو چکی تھی کہ حسن نے ثروت سے اظہار محبت کر دیا تھا، مگر ثروت نے یہ محبت کا یہ پیغام یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ اگر آپ مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں، تو میرے گھر
رشتہ لے کر آئیں۔ یعنی رشتہ لے کر میرے گھر پاکستان جانا ہوگا۔ حسن بن طلال نے رشتے کے لیے حسین بن ناصر کو پاکستان بھیج دیا۔ جب وہ پاکستان آئے تو ان کا پرپتاک استقبال کیا گیا تھا۔ اور اس طرح ثروت ایک عام پاکستانی لڑکی کا رشتہ اردن کے شہزادے کے ساتھ طے پا گیا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ اردن سے حسن بن طلال کو لے کر بارات پاکستان پہنچی،
جس کا استقبال دلہن والوں نے جس میں اس وقت کے صدر ایوب خان نے کیا۔ اس شادی میں پاکستان اور اردن کی اعلٰی سیاسی اور سماجی شخصیات نے شرکت کی تھی۔ باقاعدہ گارڈ آف آنر کے ساتھ بارات کو اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس روانہ کیا گیا، کراچی کی سڑکوں پر موجود شہریوں نے شہزادے اور شہزادی کا پرتپاک استقبال کیا۔ اس تقریب کو منفرد دلہن کی سہیلیوں نے
بنایا تھا، جنہوں نے مختلف قسم کی رسمیں ادا کی تھیں، اور بدلے میں دلہے نے دیناراور قیمتی تحائف تقسیم کیے تھے۔ نکاح کی تقریب بھی سادہ تھی، جبکہ نکاح عالم دین جمال میاں نے پڑھایا تھا۔ جبکہ نکاح میں گواہاں کے طور پر صدر ایوب خان اور شاہ حسین نے دستخط کیے تھے۔ جبکہ جوتا چھپائی کی رسم کو پورا کرتے ہوئے شہزادے نے دو ہزار دینار
ادا کیے تھے۔ شہزادی ثروت آج بھی خوش و خرم زندگی گزر بسر کر رہی ہیں۔ ان کے چار بچے بھی ہیں جن میں تین بیٹیاں رحما، سمایا اور بعدیہ پیدا ہوئی جبکہ ایک بیٹا راشد بن حسن پیدا ہوا۔ شہزادے اور شہزادی کی تصاویر ٹکٹوں پر بھی شائع ہو چکی ہے، جبکہ وہ پہلی پاکستانی خاتون ہیں جن کی تصاویر کسی غیر ملکی ڈاک ٹکٹ پر شائع ہوئی ہو۔ یہ کہانی بہت
خوش و خرم گزر رہی تھی، لیکن پھر شاہ حسین نے اپی وفات سے قبل شہزادے عبداللہ کو ولی عہد نامزد کر دیا تھا، جنہوں نے شاہ حسین کی وفات کے فورا بعد بادشاہت کا تاج سنبھال لیا تھا، اگر شاہ حسین نامزدگی نہ کرتے تو ممکنہ طور پر اگلے بادشاہ حسن بن طلال اور ملکہ ثروت ہوتیں۔ آج بھی ملکہ ثروت کو وہی شہرت حاصل ہے جو کہ پہلے تھی۔ انہیں
عالمی جامعات اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نواز چکی ہیں۔ جبکہ ان کا شمار دنیا کی خوش لباس خواتین میں ہوتا ہے۔ ملکہ کے حوالے سے یہ بات بھی بتاتے چلیں کہ ملکہ کے کپڑے پاکستانی فیشن ڈیزائین ڈیزائین کرتے ہیں۔ عمان میں واقع ان کے محل میں جو پاکستانی ڈیزائین موجود ہے وہ بھی پاکستانی ڈیزائینر نے کی تھی۔