رسول اللہ ﷺ کے چالیس اصول

اسلام آباد (کالم : جاوید چودھری )میں نے برسوں پہلے انگریزی کی کسی طبی کتاب میں بہترین زندگی کے چالیس بہترین اصول پڑھے تھے‘ میں نے وہ صفحات کاپی کر کے اپنے پاس رکھ لئے‘ میں گاہے بگاہے یہ صفحات نکال کر پڑھتا رہتا تھا‘ میں ان اصولوں پر عمل کی کوشش بھی کرتا تھا‘ میں نے دس سال قبل تفاسیر اور احادیث کا مطالعہ شروع کیا

تو پتہ چلا یہ چالیس اصول دنیا کے کسی طبی ادارے یا یورپ اور امریکا کے کسی سیلف ہیلپ انسٹی ٹیوٹ نے ڈویلپ نہیں کئے‘یہ تمام اصول ہمارے پیارے رسولؐ کی حیات طیبہ کا نچوڑہیں‘ یہ سیرت البنیؐ سے اخذ کئے گئے ہیں‘ ہمارے رسولؐ نے پوری زندگی اپنے اصحابؓ کو ان اصولوں کی ٹریننگ دی‘ آپؓ کے صحابہ کرامؓ بہترین زندگی کے ان چالیس بہترین اصولوں کی چلتی پھرتی تصویر تھے‘ میں نے اس دن سے ان اصولوں پر عبادت کی طرح عمل شروع کر دیا‘ گو میں ابھی تک ان پر مکمل عملدرآمد نہیں کر سکا لیکن مجھے یقین ہے اللہ تعالیٰ میری توفیق میں ضرور اضافہ کرے گا اور میں کسی نہ کسی دن آپؐ کے وضع کردہ ان اصولوں پر عمل میں کامیاب ہو جاؤں گا‘ یہ چالیس اصول کیا ہیں‘ آپ وہ اصول اور ان اصولوں کی جدید سائنسی توجہیات ملاحظہ کیجئے‘مجھ سے اگر تشریح میں کوئی غلطی ہو جائے تو مجھے معاف کر دیجئے گا‘ میرے لئے دعا بھی فرمائیے گا۔آپؐ نے فرمایا فجر اور اشراق‘ عصر اور مغرب اور مغرب اور

عشاء کے دوران سونے سے باز رہا کرو۔ اس فرمان میں بے شمار طبی حکمتیں پوشدہ ہیں‘ مثلاً آج میڈیکل سائنس نے ڈسکور کیا کرہ ارض پر فجر اور اشراق کے دوران آکسیجن کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی ہے‘ ہم اگر اس وقت سو جائیں تو ہم اس آکسیجن سے محروم ہو جاتے ہیں اور یوں ہماری طبیعت میں بوجھل پن آ جاتا ہے‘ ہم آہستہ آہستہ چڑچڑے اور بیزار

ہو جاتے ہیں‘ عصر سے مغرب اور مغرب سے عشاء کے درمیان بھی آکسیجن کم سے کم تر ہوتی چلی جاتی ہے‘ہم اگراس وقت بھی سو جائیں تو ہمارا جسم آکسیجن کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے اور ہم دس مہلک بیمایوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں‘ دمہ بھی ان دس بیماریوں میں شامل ہے چنانچہ آپ یہ اوقات جاگ کر گزاریں‘آپ پوری زندگی صحت مند رہیں گے‘ میرا تجربہ

ہے ہم اگر ان تین اوقات میں واک کریں توہماری طبیعت میں بشاشیت آ جاتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا‘بدبودار اور گندے لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھا کرو۔یہ حکم بھی حکمت سے لبالب ہے‘ بدبو انسان کو ڈپریس کرتی ہے جبکہ خوشبو ہماری توانائی میں اضافے کا باعث بنتی ہے‘ انسان اگر روزانہ دس منٹ بدبو دار اور گندے لوگوں میں بیٹھنا شروع کر دے تو یہ بیس دنوں میں

ڈپریشن کا شکار ہو جائے گا‘ ہمارے رسولؐ نے ہمیں شاید اسی لئے بدبودار لوگوں سے پرہیز کا حکم دیا‘آپ بھی یہ کر کے دیکھیں آپ کا مزاج بدل جائے گا۔ آپؐ نے فرمایا ان لوگوں کے درمیان نہ سوئیں جو سونے سے قبل بری باتیں کرتے ہیں۔ یہ فرمان بھی حکمت کے عین مطابق ہے‘آج سائنس نے ڈسکور کیا نیند سے قبل ہماری آخری گفتگو ہمارے خوابوں کا

موضوع ہوتی ہے اور یہ خواب ہمارے اگلے دن کا موڈ طے کرتے ہیں‘ ہم اگر برا سن کر سوئیں گے تو ہم برے خواب دیکھیں گے اور ہمارے برے خواب ہمارے آنے والے دن کا موڈ بن جائیں گے‘ ہم خوابوں کے طے کردہ موڈ کے مطابق دن گزارتے ہیں چنانچہ نیند سے قبل ہماری آخری محفل اچھی ہونی چاہیے‘ہمارا اگلا دن اچھا گزرے گا۔ فرمایا تم بائیں ہاتھ سے نہ

کھاؤ۔یہ فرمان بھی عین سائنسی ہے‘ ہمارے دماغ کے دو حصے ہیں‘ دایاں اور بایاں‘ دایاں حصہ مثبت اور بایاں منفی ہوتا ہے‘ ہم جب اپنے جسم کو دائیں ہاتھ سے ”فیڈ“ کرتے ہیں تو ہماری مثبت سوچ مضبوط ہوتی ہے اور ہم جب اپنے بدن کو بائیں ہاتھ سے کھلاتے ہیں توہماری منفی سوچ طاقتور ہوتی چلی جاتی ہے‘ آپ مشاہدہ کر لیں آپ کو بائیں ہاتھ سے کھانے والے

اکثر لوگ منفی ملیں گے‘ یہ آپ کو ہمیشہ شکوہ شکایت‘ غیبت اور دوسروں کو نقصان پہنچاتے نظر آئیں گے۔ فرمایا منہ سے کھانا نکال کر نہ کھاؤ۔یہ فرمان بھی سائنس سے درست ثابت ہوتا ہے‘ ہمارے منہ میں دس کروڑ سے ایک ارب تک بیکٹیریا ہوتے ہیں‘ یہ بیکٹیریا مہلک جراثیم بن جاتے ہیں‘یہ جراثیم ہمارے کھانے میں مل جاتے ہیں‘ یہ کھانا معدے میں جاتا ہے

تو معدے کے غدود ان جراثیم کو مار دیتے ہیں یوں یہ ختم ہو جاتے ہیں لیکن جب ہم جراثیم ملے کھانے کو منہ سے نکال لیتے ہیں تو ان جراثیم کو آکسیجن مل جاتی ہے‘ یہ آکسیجن سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ان جراثیم کی تعداد کھربوں تک پہنچا دیتی ہے‘ یہ جراثیم معدے کے غدودوں سے بھی طاقتور ہوتے ہیں‘ہم جب منہ سے نکلے لقمے کو دوبارہ منہ میں رکھتے

ہیں تو یہ لقمہ معدے میں پہنچ کر زہر بن جاتا ہے اور یہ زہر ہمارے پورے نظام ہضم کو تباہ کر دیتا ہے‘ آپ کو زندگی میں کبھی کوئی ایسا شخص صحت مند نہیں ملے گا جسے منہ سے لقمہ نکال کر کھانے کی عادت ہو جبکہ آپ کو ہونٹ بھینچ کر اور آواز پیدا کئے بغیر کھانے والے لوگ ہمیشہ صحت مند ملیں گے۔ہمارے رسول ؐ نے فرمایا ہاتھ کے کڑاکے نہ نکالا کرو۔

سائنس کا کہنا ہے ہم میں سے جو لوگ انگلیوں کے کڑاکے نکالتے رہتے ہیں ان کے جوڑ کھلنا شروع ہو جاتے ہیں اور یہ جلد آرتھریٹس کا شکار ہو جاتے ہیں‘ یہ جوڑوں کے درد کی شکایت بھی کرتے ہیں۔ فرمایا جوتا پہننے سے قبل اسے جھاڑ لیا کرو۔ہماری زندگی کے عام واقعات میں کیڑے مکوڑے‘ بچھو‘ چھپکلیاں‘ چھوٹے سانپ اور بھڑیں ہمارے جوتوں میں

پناہ لے لیتی ہیں‘ہمارے بچے بھی جوتوں میں کیل‘ کانٹے اور بلیڈ پھینک دیتے ہیں چنانچہ ہم جب جوتا پہنتے ہیں تو ہمارے پاؤں زخمی ہو جاتے ہیں یا پھر ہمیں کیڑے مکوڑے کاٹ لیتے ہیں لہٰذا جوتا پہننے سے قبل اسے جھاڑ لینا ہمیشہ فائدہ مند رہتا ہے۔ فرمایا نماز کے دوران آسمان کی طرف نہ دیکھو‘یہ فرمان بھی درست ہے‘ آسمان میں ایک وسعت ہے‘ یہ

وسعت ہمیشہ ہماری توجہ کھینچ لیتی ہے‘ ہم جب بھی آسمان کی طرف دیکھتے ہیں ہماری توجہ بٹ جاتی ہے‘ہمیں توجہ واپس لانے میں ٹھیک ٹھاک وقت لگتا ہے‘ نماز کیلئے یکسوئی درکار ہوتی ہے‘ ہم جب نماز کے دوران آسمان کی طرف دیکھتے ہیں تو ہم سجدے اور رکوع بھول جاتے ہیں چنانچہ حکم دیا گیا نماز کے دوران آسمان کی طرف نہ دیکھو‘ یہ

فارمولہ تخلیقی کاموں کیلئے بھی اہم ہے‘ اگر لکھاری لکھتے‘مصور تصویر بناتے اور موسیقار دھن بناتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھ لے تو اس کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے‘ یہ اپنا کام مکمل نہیں کر پاتا شاید یہی وجہ ہے دنیا کا زیادہ تر تخلیقی کام بند کمروں میں مکمل ہوا‘ یہ کھلی فضا میں پروان نہیں چڑھا‘ بیتھون کی سمفنیاں ہوں‘ ڈاونچی کا لاسٹ سپر ہو یا پھر

ٹالسٹائی کا وار اینڈ پیس دنیا کا ہر ماسٹر پیس بند کمرے میں تخلیق ہوا‘ آپ تخلیق کا آئیڈیا لینا چاہتے ہیں تو آپ کھلے آسمان کے نیچے کھلی فضا میں واک کریں‘ آپ آئیڈیاز سے مالا ہول ہو جائیں گے لیکن آپ اگر ان آئیڈیاز پر کام کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کمرے میں بند ہو جائیں‘ آپ کمال کر دیں گے‘ آپ کو انبیاء‘ اولیاء اور بزرگان دین بھی بند غاروں میں مراقبے

کرتے ملیں گے‘ یہاں تک کہ مہاتما بودھ کو نروان بھی ایک ایسے درخت کے نیچے ملا تھا جس سے آسمان دکھائی نہیں دیتا تھا‘وہ درخت اتنا گھنا تھا کہ وہ بارش تک روک لیتا تھا۔ آپؐ نے فرمایا رفع حاجت کی جگہ (ٹوائلٹ) مت تھوکو۔ یہ حکم اپنے اندر دو حکمتیں رکھتا ہے‘ ٹوائلٹ میں تھوکنے سے بعد میں آنے والوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور دوسرا ٹوائلٹس

میں لاکھوں قسم کے جراثیم بھی ہوتے ہیں‘ ہم جب تھوکنے کیلئے منہ کھولتے ہیں تو یہ جراثیم ہمارے منہ میں پہنچ جاتے ہیں‘ یہ ہمارے لعاب دہن میں پرورش پاتے ہیں‘یہ معدے اور پھیپھڑوں میں پہنچتے ہیں اورپھر یہ ہمیں بیمار کر دیتے ہیں‘ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی ہماری ناک جراثیم کو پھیپھڑوں تک نہیں جانے دیتی‘ ہماری ناک سے صرف کیمیکلز جسم

میں داخل ہوتے ہیں‘ جراثیم زیادہ تر منہ سے بدن میں اترتے ہیں اور ان کا بڑا سورس ٹوائلٹس ہوتے ہیں چنانچہ آپ ٹوائلٹ میں لمبی لمبی سانس لینے‘ تھوکنے‘ گانا گانے‘ آوازیں دینے اورموبائل فون پر بات کرنے سے پرہیز کریں‘آپ کی صحت اچھی رہے گی۔ آپؐ نے فرمایا لکڑی کے کوئلے سے دانت صاف نہ کرو۔ ہم میں سے بے شمار لوگ کوئلے سے دانت صاف

کرتے ہیں‘ کوئلے سے ہمارے دانت وقتی طور پر چمک جاتے ہیں لیکن یہ بعد ازاں مسوڑے بھی زخمی کر دیتاہے‘ دانتوں کی جڑیں بھی ہلا دیتا ہے اور یہ منہ میں بو بھی پیدا کرتا ہے‘ لکڑی کا کوئلہ سیدھا سیدھا کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوتا ہے‘ یہ ”ہائی جینک“ بھی نہیں ہوتا چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے پرہیز کا حکم دیا۔ آپؐ نے فرمایا ہمیشہ بیٹھ کر کپڑے تبدیل کیا

کرو۔ہم میں سے اکثر لوگ شلوار‘ پتلون یا پائجامہ پہنتے وقت اپنی ٹانگ پھنسا بیٹھتے ہیں اور گر پڑتے ہیں‘ ہم میں سے ہر شخص زندگی میں کبھی نہ کبھی اس صورتحال کا شکار ضرور ہوتا ہے بالخصوص ہم بڑھاپے میں شلوار یا پتلون بدلتے وقت ضرور گرتے ہیں‘ آپؐ نے شاید اس قسم کے حادثوں سے بچنے کیلئے یہ حکم جاری فرمایاتھا اور آپؐ نے فرمایا اپنے

دانتوں سے سخت چیز مت توڑا کرو۔ ہم لوگ اکثر بادام‘ اخروٹ یا نیم پکا گوشت توڑنے کی کوشش میں اپنے دانت تڑوا بیٹھتے ہیں‘ دانت ایکٹو زندگی کا قیمتی ترین اثاثہ ہوتے ہیں‘ آپؐ نے شاید اسی لئے دانتوں کو سخت چیزوں سے بچانے کا حکم دیا۔ نوٹ: یہ کامیاب صحت مند زندگی کے بارہ اصول ہیں‘ 28 ابھی باقی ہیں‘ یہ آپ اگلے کالم میں ملاحظہ کیجئے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *