پاکستان (نیوز اویل)، 9 اپریل کا دن پاکستان کی تاریخ میں اب ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے اعزاز سید اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ میں نے اسپیکر قومی اسمبلی اور پرویز خٹک صاحب کو سب رات کو 11 بج کے کچھ منٹ پر دیکھا تو میں نے اس دن ان پر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرنے کے حوالے سے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے ان سے بہت سے سوالات کیے جس میں ووٹنگ کے حوالے سے پوچھا اور یہ کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں لیکن ان لوگوں نے کسی قسم کا کوئی جواب نہیں دیا بلکہ جاتے جاتے سب سوالوں کے جواب میں ایک گالی دے ڈالی جس پہ میں ہکہ بکہ رہ گیا کہ اسپیکر قومی اسمبلی ایسے کیسے صحافی کو گالی دے سکتا ہے اس وقت اسپیکر اسد قیصر کافی غصے میں اور پریشانی میں مبتلا تھے اور اس وقت وہ وزیراعظم سے ملاقات کر رہے تھے اور وزیراعظم ہاؤس سے واپس آئے تھے اور سب کچھ فائنل ہو چکا تھا کہ کیا کیا جائے گا لیکن ان پر اس بات کا دباؤ تھا کہ ووٹنگ کی بات کو اگلے دن پر لے جایا جائے وہ کسی نہ کسی طریقے سےآج ووٹنگ نہ کرائی جائے ۔
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو یہ سب بات واضح طور پر بتا دی گئی تھی کہ انہوں نے بالکل وہی کرنا ہے جو وزیراعظم عمران خان کہیں گے اور یہ بات ان کو فواد چوہدری کافی بار یاد دہانی کرا چکے تھے اور اسپیکر صاحب کی اس دن دو سے تین مرتبہ فواد چوہدری سے تلخ کلامی بھی ہوئی تھی لیکن ان پر بہت زیادہ پریشر تھا کہ وہی کریں جو عمران خان کہیں گے جبکہ دوسری طرف آئین کی بات تھی اور عدالت کھل گئی تھی اور ووٹنگ کرانے کے لیے حکم جاری ہو چکے تھے۔
اسپیکر اسد قیصر کو کو یہی صورت نظر نہیں آرہی تھی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ استعفیٰ دے دیں گے اور یہ وہ وقت تھا جب پرویز خٹک نے بھی اسپیکر قومی اسمبلی کا ساتھ دیا اور ان کے اس فیصلے کو سراہا لیکن اس وقت فواد چوہدری اور پی ٹی آئی کے کچھ ارکان کافی غصے میں تھے کیونکہ ان کی پوری کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح اسد قیصر ووٹنگ کو اگلے دن پر لے جائیں لیکن ایسا نہ ہوسکا اور اس کے بعد اسد قیصر نے استعفی دے دیا اب عمران خان صاحب کو یہ بات صاف نظر آگئی تھی کہ ان پر کے پاس بچنے کا کوئی چارہ نہیں رہا تو انہوں نے وزیراعظم ہاؤس چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ادھر اس نے اپنا استعفیٰ دیا اور ادھر عمران خان نے وزیراعظم ہاؤس چھوڑ دیا۔
اعزاز سید لکھتے ہیں کہ فواد چوہدری پی ٹی آئی کے دوسرے ارکان چاہتے تھے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جائے اور آج کے دن ووٹ نہ ہو سکے لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا اور جو گالی اسد قیصر نے مجھے دی تھی وہ دراصل پی ٹی آئی والے اندر ہی اندر اسد قیصر کو دے رہے تھے اعزاز سید کا کہنا ہے کہ اسپیکر اسد قیصر کو یہ بھی ان کے سیکرٹری نے بتایا کہ آپ کی گالی ریکارڈ ہو چکی ہے لیکن وہ اتنے غصے میں تھے کہ انہوں نے دوبارہ وہی گالی دے دی ۔ اور انہوں نے مسلم لیگ نون کے اسد قیصر کو یہ بتایا کہ وہ استعفی دینے جا رہے ہیں اور ووٹنگ ایاز صادق کروائیں گے اور اس طرح سے عمران خان کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا اعزاز سید کا کہنا ہے کہ عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے میں بھی انہی لوگوں کا ہاتھ ہے جن لوگوں نے ان کو اقتدار میں آنے میں مدد کی تھی ۔