اسلام آباد (اے پی پی)پاکستان کو رہن سہن کے اعتبار سے دنیا کا سستا ترین ملک قرار دے دیا گیا ہے۔معروف تجارتی و اقتصادی شعبہ سے متعلقہ تحقیقی و تجزیاتی ادارے گو بینکنگ ریٹس کمپنی کی جانب سے اس حوالے سے جاری درجہ بندی کے مطابق پاکستان کو رہن سہن کےاخراجات کے انڈیکس میں 18.58 پوائنٹس کے ساتھ رہنے کے لئے دنیا کا سستاترین ملک قرار دیا گیا ہے
پاکستان رہن سہن کے اعتبار سے دنیا کا سستا ترین ملک قرار

جس کے بعد درجہ بندی میں افغانستان24.51 ،بھارت 25.14 اورشام 25.31 انڈیکس کے ساتھ دوسرے، تیسرے اور چوتھے نمبر پر رہے۔ دنیا میں رہن سہن کے اعتبار سے درجہ بندی کے تعین کے لئے مختلف اداروں کی طرف سے استعمال کئے جاتے ہیں جن میں گو بینکنگ ریٹس کمپنی بھی شامل ہے۔ اس کمپنی نے رہن سہن کی قوت برداشت کا تخمینہ لگانے کے لئے 4 پیمائشی معیارات استعمال کئے۔ کمپنی کی طرف سے درجہ بندی کے لئے بروئے کار لائے گئے معیارات میں رہائش اور نقل وحمل کے کرائے، مقامی قوت خرید، صارف قیمت، روز مرہ زندگی کے استعمال کی اشیا شامل ہیں۔ ان معیارات سے حاصل ہونے والے نتائج اور معلومات کادنیا کے مہنگے ترین شہروں میں شمار ہونے والے نیو یارک سٹی میں رہن سہن کے اخراجات کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے۔دوسری جانب رہن سہن کےاعتبار سے مہنگے ترین ممالک میں کیمن جزائر کا انڈیکس 141.64 ، برمودا 138.22 ، سوئٹزرلینڈ 122.67 ، اور ناروے 104.49 رہا ہے۔
ان چاروں ممالک کے مقابلے میں نیو یارک شہر کی رہن سہن کی لاگت زیادہ ہے۔ کسی بھی جگہ رہنے اور زندگی کی پر آسائش گزر بسر کے اخراجات کے لئے رقم، گھر، راشن، ٹیکسز اور بنیادی صحت جیسی بنیادی سہولیات درکار ہوتی ہیں۔ بعض ممالک میں اس کی لاگت بہت زیادہ ہے ، خاص طور پر بڑے شہروں کے گردونواح کے علاقوں جیسا کہ امریکہ میں ، نیو یارک اور سان فرانسسکو جیسے شہروں میں رہائشی اخراجات بہت زیادہ ہیں اور اس کے بر عکس بعض ممالک میں یہ لاگت بہت کم ہے اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ ان ممالک میں سکونت کے لئے رخت سفر باندھ رہے ہیں۔ دوسری جانب دنیا بھر میں روز مرہ استعمال کی اشیاکی قیمتوں نے دنیا کی سب سے زیادہ مضبوط معیشتوں کو بھی متاثر کیا ہے۔امریکی محکمہ زراعت کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 22۔2021 میں خوراک کی عالمی رسد بڑھنے کی توقع ہے اور روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ طلب اور رسد میں فرق کی وجہ سے ہے، جبکہ اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کی ایک متعلقہ رپورٹ میں پیشنگوئی کی گئی ہے کہ اجناس کی طلب اور رسد میں فرق کی وجہ سے مستقبل میں عالمی خوراک کی قیمتیں بھی ماہانہ بنیادوں پر بڑھ سکتی ہیں۔