اسلام آباد (کالم: جاوید چودھری)عثمان مرزا اور ویڈیو سکینڈل اب تک گلوبل ہو چکا ہے‘ پاکستان کے اندر اور باہر زیادہ تر لوگ اس گھنائونی ویڈیو اور کرداروں سے واقف ہو چکے ہیں لیکن ایک بات ابھی تک پڑھنے‘ دیکھنے اور سننے والوں کو حیران کرتی ہے‘ عثمان مرزا نے جو ویڈیو بنائی تھی وہ لیک کیسے ہوئی اور اسے وائرل کس نے کیا؟ یہ حقیقت اس پورے سکینڈل سے زیادہ اہم‘ زیادہ ہوش ربا ہے‘ ہم اس طرف آئیں گے لیکن آپ پہلے سکینڈل کی بیک گرائونڈ جان لیں‘ عثمان مرزا یا مرزا عثمان اسلام آباد کا ایک عام سا
’’کن ٹٹا‘‘ ہے‘ یہ پراپرٹی اور گاڑیوں کی خریدوفروخت کا کام کرتا ہے‘ اسے ویڈیو بنانے‘ سپیڈ کے ساتھ گاڑی چلانے اور عام غریب غرباء کو ڈرانے دھمکانے کا شوق تھا‘ یہ عام معمولی سا ٹک ٹاکر بھی تھا‘ اس نے ای الیون میں ایک درمیانے درجے کا فلیٹ لے رکھا تھا‘ یہ لوگ یہ فلیٹ کرائے پر بھی دیتے تھے اور خود بھی استعمال کرتے تھے‘ فلیٹ کو ان کا دوست حافظ عطاء الرحمن مینٹین کرتا تھا‘ عثمان مرزا اور اس کا بھائی علی اس کے ساتھ مل کر پراپرٹی کا بزنس بھی کرتے تھے‘ حافظ عطاء کے پاس اسد نام کا ایک نوجوان پراپرٹی ڈیلنگ کا کام کرتا تھا‘ یہ موٹر سائیکل پر چل پھر کر دیہاڑیاں لگاتا تھا‘ راولپنڈی کا رہنے والا تھا اور انتہائی غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا لیکن یہ مارکیٹنگ کا ایکسپرٹ تھا‘
یہ مہینے دو مہینے میں کوئی نہ کوئی گاہک گھیر کر لے آتا تھا اور اس سے اس کا دال دلیہ چل رہاتھا‘ اسد نے لاہور کی ایک نوجوان لڑکی سے چیٹنگ شروع کی اور یہ ایک دوسرے کے دوست بن گئے‘ لڑکی پڑھی لکھی اور خوب صورت تھی‘ نومبر 2020ء میں لڑکی اسد سے ملاقات کے لیے اسلام آباد آئی‘ اسد نے حافظ عطاء الرحمن سے ایک رات کے لیے فلیٹ لے لیا‘ یہ فیض آباد گیا‘ لڑکی کو لیا اور یہ فلیٹ میں آ گئے‘ اس دوران عثمان مرزا کے بھائی علی مرزا کو فلیٹ کی ضرورت پڑ گئی‘ اس نے حافظ عطاء سے چابی مانگی‘ حافظ نے اسے جواب دیا ’’فلیٹ کرائے پر لگا ہوا ہے‘ کل ملے گا‘‘ علی مرزا نے پوچھا ’’تم نے کس کو فلیٹ دیاہے؟‘‘ اس نے ٹالنے کی کوشش کی لیکن جب علی کی طرف سے اصرار بڑھ گیا تو اس نے بتا دیا‘ فلیٹ میں اسد اپنی منگیتر کے ساتھ ٹھہرا ہوا ہے‘‘ علی کو غصہ آ گیا‘
دونوں کی لڑائی ہوئی‘ علی نے اپنے بڑے بھائی عثمان مرزا کو بلایا‘ عثمان مرزا ہتھ چھٹ تھا‘ اس کے پاس فلیٹ کی دوسری چابی بھی موجود تھی‘ یہ اپنے بھائی‘حافظ عطاء الرحمن اور دوسرے دوستوں کو ساتھ لے کر ای الیون گیا‘ دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو گیا‘ لڑکی اس وقت باتھ روم میں تھی جب کہ اسد کمرے میں بیٹھا ہوا تھا‘ عثمان مرزا نے اس کے بعد جو کیا اب تک پوری دنیا دیکھ چکی ہے ‘بہرحال عثمان مرزا نے دونوں پر تشدد بھی کیا‘ انہیں گالیاں بھی دیں‘ لڑکی کے کپڑے بھی اتارے اور کیمرہ لگا کر دونوں کو ۔۔۔۔۔کرنے کا حکم بھی دیا‘ عثمان مرزا نے ڈیڑھ گھنٹے کی فلم بنائی اور یہ اس کے بعد اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں سے چلا گیا۔
یہ کہانی یہاں ختم ہو جاتی ہے‘ ہم اب آتے ہیں ویڈیو لیک کی طرف‘ عثمان مرزا ایک بدکردار شخص ہے‘ اس کی ایک گرل فرینڈ تھی‘ اس نے خود کو طاقتور اور ماچو مین ثابت کرنے کے لیے یہ ویڈیو اپنی گرل فرینڈ کو بھجوا دی‘ یہ دو تین دن اس پر تبصرہ بھی کرتے رہے اور اس بے چارے مظلوم جوڑے کی حالت پر ہنستے بھی رہے‘ گرل فرینڈ نے احتیاطاً یہ ویڈیو اپنے پاس محفوظ رکھ لی‘ اس دوران گرل فرینڈ نے عثمان مرزا کے ایک دوست سے شادی کر لی اور یہ ایک مطمئن زندگی گزارنے لگی‘ عثمان مرزا اور اس سابق گرل فرینڈ کے خاوند کا ایک دوسرے سے جھگڑا ہوا‘ معاملہ پولیس تک چلا گیا‘ عثمان مرزا کے پولیس کے ساتھ تعلقات تھے‘ اس نے سابق گرل فرینڈ کے خاوند کو گرفتار کرا دیا‘
سابق گرل فرینڈ نے عثمان مرزا کی منتیں کیں‘ یہ اس کے پائوں تک پڑ گئی لیکن یہ وہ جانور بن چکا تھا جو جتنا انجام کے قریب جاتا ہے وہ اتنا ہی متکبر ہوتا جاتا ہے‘ ہم انسان بھی جب مکافات عمل یا اپنے کیے ہوئے کی سزا پانے لگتے ہیں تو ہماری گردن میں سریا آنے لگتا ہے‘ آپ پوری تاریخ کھنگال لیں‘ آپ کو انسان ہوں‘ کمپنیاں ہوں یا پھر ریاستیں ہوں یہ تباہ ہونے سے پہلے متکبر ہوتی نظر آئیں گی‘ غرور زوال کا نقطہ آغاز ہوتا ہے‘ اللہ جب بھی کسی انسان کو دردناک مثال بنانا چاہتا ہے تو یہ اسے مغرور کر دیتا ہے‘ آپ کو اس وقت حکومت میں بھی ایسے بے شمار لوگ ملیں گے ‘آپ ان کی گردنیں‘ نظریں اور لفظ دیکھ لیں‘ آپ کو ان میں فرعون بیٹھے دکھائی دیں گے اور آپ بہت جلد ان لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچتے بھی دیکھیں گے‘ یہ انسانی تاریخ کا درد ناک پہلو ہے‘ میں ایشو کی طرف واپس آتا ہوں‘ سابق گرل فرینڈ نے اس کی منتیں اور ترلے کیے لیکن یہ غرور کے گھوڑے پر چڑھا ہوا تھا لہٰذا یہ نہ مانا اور اس نے اپنے دوست کو مزید ٹائیٹ کر دیا‘
تنگ آمد بجنگ آمد‘ عثمان مرزا کی سابق گرل فرینڈ نے پرانی ویڈیو نکالی اور جولائی کے شروع میں سوشل میڈیا پر ڈال دی‘ ملزمان کی نشان دہی بھی اس نے کی اور یوں یہ شخص مکافات عمل کا شکار ہو گیا‘ پولیس نے شروع میں اس کیس کو لائیٹ لیا لیکن میڈیا نے اسے اٹھا لیا اور یہ وزیراعظم‘ صدر اور آرمی چیف تک پہنچ گیا تو پھر پوری سٹیٹ ایکٹو ہو گئی‘ پولیس نے چھاپے مارے اور ملزمان کو گرفتار کرنا شروع کر دیا‘ یہ لوگ شروع میں بہت بااعتماد تھے‘ ان کا خیال تھا کیس پرانا ہے‘ پولیس شہادتیں اکٹھی نہیں کر سکے گی‘ لڑکی کے ساتھ زیادتی بھی نہیں ہوئی اور مدعی اسد بھی چند جوتوں اور چند لاکھ روپوں کی مار ہے‘ یہ کیس کو سمیٹ لیں گے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ کیس بڑا ہوتا چلا گیا‘ دفعات میں بھی اضافہ ہوتا رہا اور پولیس کی تفتیش بھی سخت سے سخت ہوتی چلی گئی چناں چہ یہ لوگ اوقات پر آتے چلے گئے‘ یہ آخر میں پولیس کی منتوں اور ترلوں پر بھی آ گئے اور جائے نماز پر بیٹھ کر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگنے لگے‘
یہ مدعیوں سے مل کر معافی مانگنے کے لیے بھی تیار تھے لیکن اب وقت گزر چکا تھا‘ قدرت نے اب انجام کے علاوہ ان کے نصیب میں کوئی ریلیف نہیں چھوڑا تھا‘ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں یہ لوگ اس دوران لڑکی اور لڑکے سے ساڑھے گیارہ لاکھ روپے بھی اینٹھ چکے تھے اور یہ رقم ان دونوں نے کیسے اکٹھی کی ہو گی آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں۔ ہمیں ماننا ہو گا ہمارا سماج اندر سے بہت کھوکھلا‘ بہت بدبودار ہو چکا ہے‘ بالخصوص اسلام آباد ملک کا بدترین شہر بن چکا ہے‘ یہ ملک کا واحد شہر ہے جس کا ہر باسی کروڑ پتی ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ آپ اگر اس شہر میں پانچ مرلے کے مکان کے مالک بھی ہیں تو بھی آپ کروڑ پتی ہیں‘ پاکستان میں شرح کے لحاظ سے سب سے زیادہ گاڑیاں اسلام آباد میں ہیں‘ چار گاڑیاں فی گھر بنتی ہیں‘ ملک میں سب سے زیادہ دولت بھی اس شہر میں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ رئیل سٹیٹ کے علاوہ شہر کے پاس کوئی ذریعہ روزگار نہیں‘ آدھا شہر پراپرٹی ڈیلر ہے اور باقی آدھا شہر ان ڈیلروں کے متاثرین ہیں
‘ پولیس کے نوے فیصد اہلکار بھی پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں اور یہ خود بھی کروڑ پتی ہیں اور نہلے پر دہلا پورے شہر میں بااثر لوگ پھیلے ہوئے ہیں‘ یہ سارا تھانہ‘ آدھے وکیل اور بڑی حد تک عدالت کو دبا لیتے ہیں چناں چہ یہ شہر‘ شہر نہیں رہا یہ ایک ایسا جنگل بن چکا ہے جس کا ہر جانور درندہ ہے اور یہ صبح اٹھ کر شکار کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے‘ آپ یقین کریں آپ رات کے وقت سڑکوں پر نہیں نکل سکتے‘ نوجوان شراب اور آئس کے نشے میں دھت دو سو کلومیٹر کی رفتار سے گاڑیاں چلا رہے ہوتے ہیں اور کوئی انہیں روکنے کی جرات نہیں کرتا‘ عثمان مرزا یا ظاہر جعفر اس ماحول کا صرف ایک دانا ہیں‘ باقی ساری دیگ ان سے بھی بدتر ہے چناں چہ میری حکومت سے درخواست ہے آپ پورے پاکستان کو نیا بنانے کی بجائے صرف اسلام آباد پر فوکس کریں‘
آپ اسلام آباد ہی نیا بنا دیں‘ 24 کلومیٹر کا یہ شہر پورے ملک کو بدل دے گا اور آپ اگر اس شہر کو نہ بدل سکے تو پھر میرا خیال ہے آپ کو قوم سے معافی مانگ کر نئے پاکستان پر بھی یوٹرن لے لینا چاہیے‘ بچت بہرحال اسی میں ہے۔