جب معرکۂ کرب و بلا کے بعد حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کے پسماندگان کا لٹا پٹا قافلہ یزید کے دربار میں پیش کیا گیا تو فتح کے سرور میں چور اسلامی تاریخ کے اس پہلے غاصب حکمران نے خاندان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن و تشنیع کے نشتر برسانے شروع کر دیے ‘نامور کالم نگار ارشاد احمد عارف اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔ کیونکہ نواسۂ رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے اقتدار کو للکارا تھا۔ جبر‘ خوف‘اور غم و الم کی اس کیفیت میں بھی حضرت حسینؓ کی ہمشیرہ زینب بنت فاطمہؓ نے ہراساں ہوئے بغیر یزید سے کہہ دیا ’’تو زبردستی حاکم بن بیٹھا ہے‘ ظلم کرتا ہے‘ لاف زنی تیرا شیوہ ہے اور تو اپنی قوت سے مخلوق خدا کو دباتا ہے۔‘‘ معرکۂ کرب و بلا مسلمانوں کی تاریخ کا عجیب مگر شرمناک واقعہ ہے۔
”معرکہ کربلا کے بعد جب حضرت امام حسین کے پسماندگان کو یزید کے دربار میں پیش کیا گیا“

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست فیض حاصل کرنے والے برگزیدہ اصحابؓ کی زندگی میں نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دن دیہاڑے سفاکانہ انداز میں زندگی سے محروم کر دیا گیا‘ان کے اولوالعزم اور پاکیزہ اطوار ساتھیوں‘ بھائیوں‘ بیٹوں اور عزیزوں کو تہہ تیغ کیا گیا۔فرات کے پانی پر پہرہ تھا مگر ان نفوس قدسیہ کا لہو بہانے کی آزادی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں کھیلنے اور زبان کو چوسنے والے حق و صداقت کے اس پیکر حسین ؓکے جسم کی بے حرمتی کی گئی‘ گھوڑے دوڑائے گئے اور سروں کو نیزے پر چڑھا کر فتح کا جشن منایا گیا۔
جگر گوشہ ٔ حسین حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ بزبان حال کہتے ہی رہ گئے ؎ تم پہ اور مِرے ناناؐ کی عنایت نہ سہی ظالمو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا حسین ابن علیؓ سے یزید کا مطالبہ کیا تھا؟ بس یہ کہ اس کے اقتدار کو جسے خاندان رسولؐ غاصبانہ سمجھتا تھا درست تسلیم کیا جائے اور اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے ‘یزید کو اندازہ تھا کہ حسین ابن علی رضی اللہ عنہ نے اطاعت نہ کی تو تاقیامت اس کی حکمرانی کو ناجائز گردانا جائے گا۔ عُمر بن سعد اور ابن زیاد صلح‘ صفائی کی جو کوششیں کرتے رہے اور حضرت حسین ؓ بھی لڑائی سے بچنے کے لئے وقتاً فوقتاً جو تجاویز یا شرائط پیش کرتے رہے ان میں کہیں بھی اقتدار میں شراکت یا بزور طاقت یزید کے تخت پر قبضہ کرنے کا ذکر نہیں۔