نوٹ: چوں کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مدینہ منورہ میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مبلغِ اسلام بن کر آئے تھے، اور انہی کی تبلیغ سے مدینہ منورہ میں اسلام پھیلا، اس لیے آپ ﷺ نے جمعے کے قیام کا خط حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے نام جاری فرمایا، بنابریں مدینہ منورہ میں پہلے جمعے کے قیام کی نسبت حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی طرف بھی کی جاتی ہے۔
صفر کے پورے مہینے میں صرف 70 بار

نمازِ جمعہ مکہ معظمہ میں فرض ہوچکی تھی؛ لیکن اس کی سب سے پہلے ادائیگی مدینہ منورہ میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے فرمائی،اس پہلے جمعہ میں 40حضرات شریک تھے، پھر جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے پہلا جمعہ “قبا” سے روانہ ہوکر محلہ بنو سالم بن عوف میں ادا فرمایا۔ جہاں بعد میں ایک مسجد بنادی گئی، جو “مسجدِ جمعہ” کے نام سے موسوم ہوئی۔
البناية شرح الهداية (3/ 53):
“وقال أهل السير والتواريخ: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى نزل بقباء على بني عمرو بن عوف وذلك يوم الاثنين لاثنتي عشرة ليلةً خلت من شهر ربيع الأول حين اشتد الضحى، فأقام عليه السلام بقباء يوم الاثنين ويوم الثلاثاء ويوم الأربعاء ويوم الخميس، وأسس مسجدهم ثم خرج يوم الجمعة عامداً المدينة فأدركته صلاة الجمعة في بني سالم بن عوف في بطن واد لهم قد اتخذ القوم في ذلك الموضع مسجداً، وكانت هذه الجمعة أول جمعة جمعها رسول الله صلى الله عليه وسلم في الإسلام، فخطب في هذه الجمعة وهي أول خطبة خطبها بالمدينة، فما قبلها وبعدها أول جمعة جمعت في الإسلام بقرية يقال لها: “جواثا” من قرى البحرين”.