دنیا کی کم عمر ترین نوبیل انعام یافتہ پاکستانی اور انسانی حقوق کی کارکن ملالہ یوسفزئی نے خود پر کیے گئے حملے کے 9 برس بعد بھی اب تک علاج جاری رہنے سے متعلق بتاتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان نے میرے جسم کو جو نقصان پہنچایا ڈاکٹر اس کا علاج آج بھی کررہے ہیں۔ملالہ یوسفزئی نے افغانستان میں طالبان کی واپسی کے تناظر میں اپنے علاج سے متعلق مضمون فیس بک کے بلیٹن پوڈیم کے لیے تحریر کیا جس میں انہوں نے 2012 سے لے کر اب تک جاری رہنے والی سرجریز پر بات کی ہے۔
طالبان نے میرے جسم کو جو نقصان پہنچایا ڈاکٹر آج بھی اس کا علاج کررہے ہیں، ملالہ یوسف زئی

خیال رہے کہ ملالہ یوسفزئی پر نامعلوم افراد نے 9 اکتوبر 2012 کو سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کے قریب حملہ کردیا تھا، ان کے ساتھ مزید دو طالبات بھی زخمی ہوئی تھیں اور بعد ازاں حملے میں طالبان کے ملوث ہونے کے شواہد ملے تھے۔ اپنے مضمون کا آغاز کرتے ہوئے ملالہ نے لکھا کہ ‘2 ہفتے قبل جب امریکی افواج، افغانستان سے انخلا کررہی تھیں اور طالبان کنٹرول حاصل کررہے تھے، اس وقت میں بوسٹن کے ایک ہسپتال میں بستر پر لیٹی اپنے چھٹے آپریشن سے گزر رہی تھی، کیونکہ طالبان نے میرے جسم کو جو نقصان پہنچایا تھا، ڈاکٹروں اس کا علاج کررہے تھے۔
اکتوبر 2012 میں ہونے والے حملے میں ایک گولی سے خود کو پہنچنے والے نقصان سے متعلق ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ گولی نے میری بائیں آنکھ، کھوپڑی اور دماغ کو چیر دیا تھا، میرے چہرے کو زخمی کردیا تھا، میرے کان کا پردہ توڑ دیا تھا اور میرے جبڑے کے جوڑوں کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔انہوں نے لکھا کہ پاکستان کے شہر پشاور کے ایمرجنسی سرجنز نے میری بائیں کھوپڑی کی ہڈی کو ہٹا دیا تھا تاکہ میرے دماغ کو چوٹ لگنے کے نتیجے میں ہونے والی سوجن کے لیے جگہ پیدا ہو، ان کی بروقت کارروائی نے میری جان بچائی تاہم جلد ہی میرے اعضا نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور مجھے طیارے کے ذریعے اسلام آباد لے جایا گیا تھا۔ملالہ نے کہا کہ ایک ہفتے بعد ڈاکٹرز نے اس بات کا تعین کیا کہ مجھے زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہے اور علاج جاری رکھنے کے لیے مجھے اپنے وطن سے باہر منتقل کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ اس دوران مجھے کوما میں رکھا گیا تھا، مجھے اس وقت سے لے کر برمنگھم کے کوئین الزبتھ ہسپتال میں ہوش میں آنے تک کچھ بھی یاد نہیں۔