اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)کوہ پیمائوں کیلئے کے ٹو کا ڈیتھ زون کیا ہے اور کوہ پیما وہاں کتنے گھنٹے زندہ رہ سکتے ہیں ؟ یہ سوال اکثر قارئین کے ذہن میں جنم لیتے ہیں، شاید آپ نے ایورسٹ فلم کا وہ منظر تو دیکھا ہو گا جس میں نیوزی لینڈ کے گائیڈ اور کوہ پیما اینڈی ہیرس کے دماغ میںاچانک ہذیانی خیالات آنے لگتے ہیں اور وہ اپنے کپڑے اور گئیر سب اتار پھینکتا ہے اور موت کو گلے لگا لیتا ہے۔
K2 کا ڈیتھ زون کیا ہے، وہاں انسان کیساتھ کیا ہوتا ہے؟دل دہلا دینے والے انکشافات

روزنامہ جنگ کی رپورٹ کے مطابق آج سے چھ سال قبل سمجھنا مشکل تھاکہ اینڈی نے ایسا کام کیوں کیا؟ تب ماہرین کو نہیں معلوم تھا کہ ہیرس ہائی پوکسیا کا شکار تھے اور اتنی اونچائی پر آکسیجن کی کمی انسانی دماغ اور جسم پر کیا اثر ڈالتی ہے۔ کے ٹو جہاں بلند چوٹیوں کو تسخیر کرنے والے کوہ پیمائوں کے دلوں میں ایڈونچر یا مہم جوئی کے جذبات جگاتی ہے وہیں یہ چوٹی دنیا کی سب سے بلند چوٹی ایورسٹ سے بھی زیادہ خوفناک سمجھی جاتی ہے۔ اس چوٹی کو سر کرنے کی جستجو کرنے والے ہر چار میں سے ایک کوہ پیما کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ کے ٹو پر اموات کی شرح 29 فیصد ہے جبکہ اس کے برعکس دنیا کی سب سے بلند چوٹی ایورسٹ پر یہی شرح چار فیصد ہے۔ ڈیتھ زون کیا ہوتا ہے اور اور کوہ پیما ڈیتھ زون میں کتنے گھنٹوں تک زندہ رہ سکتے ہیں؟ اور اتنی اونچائی پر رہنے سے انسانی دماغ اور جسم پر کیا اثراتپڑتے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق انسانی جسم سطح سمندر سے 2100 میٹر تک کی بلندی پر رہنے کے لیے بنا ہے اور اس سے زیادہ بلندی پر انسانی جسم میں آکسیجن کی سچوریشن تیزی سے کم ہونا شروع ہوجاتی ہے اور جسم میں منفی اثرات رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ایکشن گائیڈ ہائی ایلٹیٹیوڈ ایکلیماٹائزیشن اینڈ ایلنس کے مصنف رک مارٹن کے مطابق ایسے اونچے پہاڑوں پر جانے سے قبل کوہ پیما کئی ہفتوں تک ایکلیماٹائزیشن (acclimatization) یعنی جسم کو ماحول کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا عمل کرتے ہیں تاکہ ان کا دماغ آکسیجنکی سپلائی کے مطابق آہستہ آہستہ ماحول کے حساب سے کام کرنے لگے۔