حضورﷺ کی کوئی بہن نہیں تھی لیکن جب آپ حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ کے پاس گئے تو وہاں حضورﷺ کی رضائی بہن کا ذکر بھی آتا ہے جو آپ کو لوریاں دیتی تھی ۔ جن کا نام حضر ت شیما ؓ تھا ۔ جب غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو جس قبیلہ میں سیدہ شیما ؓ کی شادی ہوئی تھی ۔اس قبیلہ کے ساتھ مسلمانوں کا ٹکراؤ آگیا ۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطاء کردی ۔ اس قبیلہ کے چند لوگ صحابہ کرام ؓ کے
ہاتھوں گرفتار ہوکر قید کردیئے گئے ۔ یہ لوگ اپنے قیدیوں کو چھڑانے کیلئے فدیہ جمع کرنے لگے اور قبیلہ کے سردار ایک ایک گھر سے رقم جمع کررہے ہیں چلتے چلتے یہ سیدہ شیما ؓ کے گھر پہنچ گئے ۔جو اپنی عمر کا ایک خاص گزار چکیں تھیں۔ ان سے کہنے لگے کہ اتنا حصہ آپ کا بھی آتا ہے ۔ سیدہ شیما ؓ نے کہا کہ کس لیے سردار او رساتھ والے لوگوں نے کہا کہ جو لڑائی ہوئی ہے ۔ اس میں ہمارے آدمی گرفتار ہوچکے ہیں۔ باتیں کرتے کرتے کسی کے لبوں پر حضرت محمدﷺ کا نام بھی آگیا تو سیدہ شیما ؓ سن کر کہنے لگیں اچھا انہوں نے تمہارے لوگ پکڑے ہیں۔ سیدہ شیما ؓ نے کہا کہ تم رقم اکٹھی کرنا چھوڑ دو مجھے ساتھ لے چلو ۔ سردار نے کہا کہ آپ کو ساتھ لے چلیں۔ سیدہ شیما ؓ کہنے لگیں کہ ہاں تم نہیں جانتے وہ میرا بھائی لگتا ہے ۔قوم کے سرداروں کے ساتھ سیدہ شیما ؓ حضورﷺ کے نوری خیموں کی طرف جارہی ہیں اور صحابہ کرام ؓ ننگی تلواروں سے پہرے دے رہے ہیں یہ مکی دور تو تھا نہیں یہ مدنی دور تھا۔ سیدہ شیما ؓ قوم کے سرداروں کے آگے جب بڑھنے لگیں تو صحابہ کرام ؓ نے تلواریں اُٹھائیں اور پکارا او دیہاتی عورت رک جا دیکھتی نہیں آگے کوچہ رسول ﷺ ہے آگے بغیر ازن کے جبرائیل ؑ نہیں جاسکتے تم کون ہو ۔ حضرت شیما ؓ نے جواب میں جو الفاظ کہے ان کا اُردو ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے میری راہیں چھوڑ دو تم جانتے نہیں میں تمہارے نبیﷺ کی بہن لگتی ہیں ۔ تلواریں جھک گئیں ۔ آنکھوں پر پلکوں چلمنیں آگئیں راستہ چھوڑ دیا گیا ۔ سیدہ شیما ؓ حضورنبی کریمﷺ کے خیمہ نوری میں داخل ہوگئیں۔ حضورﷺ نے دیکھا اور پہچان گئے فوراً اُٹھ کر کھڑے ہوئے اور فرمایا بہن کیسے آنا ہوا ۔آپﷺ کے لوگوں نے ہمارے کچھ بندے پکڑ لیے ہیں ان کو چھڑانے آئی ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا بہن تم نے زحمت گوارا کیوں کی پیغام بھیج دیتیں میں چھوڑ دیتا لیکن تم آگئی اچھا ہوا ملاقات ہوگئی ۔ پھر حضورﷺ نے قیدیوں کو چھوڑنے کا اعلان کیا۔ کچھ گھوڑے اور چند جوڑے سیدہ شیما ؓ کو تحفے میں دے دیئے ۔کیونکہ بھائیوں کے دروازے پر جب بہنیں آتی ہیں تو بھائی خالی ہاتھ تو بہنوں کو نہیں موڑا کرتے حضورﷺ نے بہت کچھ عطاء کیا اور رخصت کرنے خیمے سے باہر تشریف لے آئے تو صحابہ ؓ کی جماعت منتظر تھی فرمایا اے صحابہ کرام ؓ آپ جانتے ہیں جب بھی میں قیدی چھوڑا کرتا ہوں میری یہ عادت ہے کہ آپ سے مشاورت کرتا ہےلیکن آج ایسا موقع آیا ہے کہ میں نے آپ سے مشاورت نہیں کی اور قیدی بھی چھوڑ دیئے آپ جو چاہیں کریں صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ مشاورت کیوں نہیں کیا ارشاد تو فرمائیں فرمایا میرے دروازے پر میری بہن آئی تھی سبحان اللہ یہ ہوتی ہے بہن کی عزت یہ ہوتا ہے بہن کا وقار آپ بھی ارادہ کریں آپ اپنی بہنوں اور بہنوں کے بچوں سے بہت پیار کریں گے ۔