پاکستان (نیوز اویل)، ہم میں سے زیادہ تر لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا وزیراعظم بھی گزرا ہے جو دودھ فروش تھا۔ جی ہاں، ایک ایسا شخص جسے اپنے طالب علمی کے زمانے میں غربت کی وجہ سے تعلیم جاری رکھنے کے لیے دودھ بیچنا پڑا وہ بچہ اپنے گاؤں کے گھروں سے دودھ اکٹھا کرتا، ریڑھی پر ڈرم میں دودھ ڈالتا اور اسے شہر لے جا کر دکان داروں کو بیچا کرتا تھا۔ اس نے اس کام میں بھی عار محسوس نہ کی۔
فرسٹ ایئر میں اس کے پاس کلاس میں پہننے کے لئے کوٹ نہ تھا تو اسے کلاس سے نکال کر اس کی غیر حاضری لگادی جاتی۔ اساتذہ کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اس ہونہار طالب علم کی اس معاملے میں مدد کی۔ 1947 میں جب اس نے بی اے آنرز کیا تو وہ اپنے علاقے کا پہلا گریجویٹ تھا۔ پھر اس نے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا اور قانون دان کی حیثیت سے پریکٹس شروع کر دی۔
اس نے اپنے علاقے کے لوگوں کی بہت مدد کی اور کئی تعلیمی ادارے کھلوائے۔
1965ء میں اس نے مغربی پاکستان سے الیکشن لڑا اور کامیاب بھی ہوا۔ وہ پیپلزپارٹی کے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے اس پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔
1972ء میں وہ پنجاب کا وزیر اعلی اور 1996ء میں وہ ملک کا وزیراعظم منتخب ہوا۔ ایک ان پڑھ اور غریب کسان کا بیٹا جس نے دودھ بیچ کر تعلیم حاصل کی اور اپنی انتھک محنت سے یہ مقام پایا اس کی مثال تاریخ میں کم ہی ملتی ہے.
یہ انسان ملک معراج خالد تھے جو لاہور میں لکشمی مینشن میں کرائے پر رہے۔ ان کے مکان کے باہر کوئی دربان نہ تھا. اس عہد ساز شخصیت کا 23 جوان 2003ء کو انتقال ہوا۔