ٹوکیو اولمپکس میں بھارت کے نیرج چوپڑا نے گولڈ میڈل جیت لیا جبکہ پاکستان کے ارشد ندیم پانچویں پوزیشن پر رہے۔
دونوں ایتھلیٹس ہم عمر سہی، دونوں کا تعلق پڑوسی ملکوں سے سہی، لیکن دونوں کو ملنے والی سہولیات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
یہی فرق ٹوکیو اولمپکس کے جیولین تھرو کے فائنل میں نظر آیا۔
ٹوکیو اولمپکس جیولین تھرو کے فائنل میں بھارت کے نیرج چوپڑا نے87 اعشاریہ 58 کی تھرو کرکے گولڈ میڈل جیتا جبکہ ارشد ندیم کی تھرو84 اعشاریہ 62 میٹرز رہی۔
جب دونوں ایتھلیٹس کا تعلق ساؤتھ ایشیا سے اور دونو ں کی عمریں بھی تقریبا برابر ہیں تو پھر اتنا فرق کیوں؟
یہ فرق ٹریننگ اور سہولیات کا ہے، جو نیرج چوپڑا کو تو مہیا تھیں لیکن ارشد ندیم کو نہیں۔
بھارت نے نیرج پر کروڑوں خرچ کیا، پاکستان میں ارشد کو جو کچھ ملا، اس کے بارے میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’اونٹ کے منہ میں زیرہ‘۔
اولمپکس سے قبل نیرج چوپرا نے اپنا زیادہ تر وقت یورپ میں گزارا، جہاں وہ ٹریننگ کرتے رہے۔
انڈین حکام نے ان کیلئے جرمن کوچ کی خدمات حاصل کی تھیں، ساتھ ساتھ ان کے ساتھ ان کی جسمانی تربیت کے لئے بائیو مکینکس کے ماہر کی بھی خدمات نیرج چوپڑا کو دستیاب تھیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق اولمپکس سے ایک سال قبل جیولین تھروور پر 1 کروڑ 61 لاکھ بھارتی روپے خرچ کئے گئے جو پاکستانی کرنسی میں ساڑھے3 کروڑ سے بھی زائد ہے۔
اولمپکس سے قبل نیرج چوپڑا نے سوئیڈین میں ٹریننگ کی جبکہ 5 انٹرنیشنل ٹورنامنٹس میں بھی حصہ لیا، جس سے ان کے کھیل میں مزید نکھار پیدا ہوا۔
نیرج کے برعکس پاکستان کے ارشد ندیم اولمپکس سے قبل صرف ایک ایونٹ کھیل سکے، انہیں گزشتہ برس چین ٹریننگ کیلئے بھیجا گیا تھا لیکن کووڈ کی وجہ سے انہیں واپس آنا پڑا۔
اس سال انہیں مختصر مدت کےلئے ترکی ضرور بھیجا گیا، جہاں انہوں نے 2 ہفتے قازقستان کے کوچ کی زیر نگرانی ٹریننگ کی۔
وہ زیادہ تر وقت پنجاب اسٹیڈیم میں اپنے کوچ فیاض بخاری کی زیر نگرانی ہی ٹریننگ کرتے رہے۔
ذرائع کے مطابق پی ایس بی نے ٹریننگ کے لئے وینیو کی سہولت فراہم کی تھی جبکہ ایران میں ٹورنامنٹ کیلئے ٹکٹ دیا تھا، زیادہ تر وسائل ایتھلیٹکس فیڈریشن آف پاکستان نے استعمال کئے۔ پی ایس بی سے فنڈز تو اتنے نہیں ملے لیکن وعدے ضرور بڑے بڑے ملے۔
کاش کہ وہ وعدے پورے ہوجاتے تو آج پاکستان بھی جیولین تھرو مقابلوں میں بھارت کے ساتھ پوڈیم پر ہوتا۔