پاکستان (نیوز اویل)، بھیک مانگنے والوں کو صدقہ دینے کی بارے میں کیا حکم ہے؟
جانیے بہت اہم معلومات! آج کل پاکستان میں آپ کو ہر گلی کے موڑ پہ بھیک مانگنے والا مل جائے گا ، آپ کہیں
ٹریفک سگنل پر رکتے ہیں یا پھر کسی بازار میں جاتے ہیں بھیک مانگنے والے آپ کے اردگرد ہجوم لگائے رکھتے ہیں ،
لیکن ان میں سے اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو کہ صرف اور صرف اپنی سستی
اور کاہلی کی وجہ سے کام نہیں کرتے ، آج ہم آپ کو بتائیں گے کہ بھیک مانگنے والوں کو صدقہ دیا جا سکتا ہے یا نہیں اور اس حوالے سے اللہ تعالی نے کیا حکم دیا ہے ،
اسلام میں بھیک مانگنے کو بہت زیادہ برا سمجھا گیا ہے اور اس کو پیشہ بنا لینا تو ممنوع قرار دیا گیا ہے ، ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی بھیک مانگنے کو منع فرمایا اور اپنے
دور میں اس حوالے سے کافی کام بھی کروایا اور یہ حکم دیا گیا کہ اپنے ہمسایوں کا اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کا خیال رکھیں اور اگر ان میں کوئی ضرورت مند ہیں تو ان کی مالی مدد کریں ،
تاکہ کسی کو بھیک مانگنے کی ضرورت پیش نہ آئے ، لیکن آج کے دور میں جب مہنگائی عروج پر ہے اور لوگوں کے پاس کھانے کے لئے کھانا بھی نہیں ہے اس وقت بہت سے ضرورت مند لوگ بھیک مانگ رہے ہیں
لیکن ان کے علاوہ زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو کہ پیشاوارانہ بھکاری ہیں ، وہ کھاتے پیتے ہیں لیکن انہیں بھیک مانگنے کی عادت پڑ گئی ہے ، اور ہمارے ملک میں اس حوالے سے کوئی قانون سازی بھی نہیں کی جا رہی
اور ان کو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے ، ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ فرمایا کہ ” او پر والا ہاتھ ( دینے والے کا ) نیچے والے ہاتھ ( لینے والے کے ) سے بہتر ہے اور ( خر چ کرنے کی ) ابتدا ان لوگوں سے کرو
جن کی کفالت تمہارے ذمے کی گئی ہے ۔ اور بہترین صدقہ وہ ہے جو تو نگری کے بعد ( یعنی کہ اپنی جائز ضروریات پوری کرنے کے بعد ) ہو اور جو سو ال سے بچنا چا ہے اللہ اسے بچا لیتا ہے اور جو لوگوں سے بے نیازی اختیار کرے اللہ اسے بے نیاز کر دیتا ہے ۔ ” ( صحیح بخاری 1429)
سب سے پہلے ہم لوگوں کو چاہیے کہ مل کر اس حوالے سے کوئی اقدامات کریں اور یہ پتہ کریں کہ کون لوگ ضرورت مند ہیں اور کون نہیں ، اور اس کے ساتھ ہی اپنے گلی محلوں میں اپنے ہمسایوں کا بھی خیال رکھیں ، اور اللہ کی راہ میں جتنا ہوسکے صدقہ کرتے رہا کریں ،