دنیا کے تہذیب یافتہ ممالک میں باپ سے بیٹی کی شادی کو انتہائی شرمناک سمجھا جاتا ہے اور اس کا شاید کوئی مہذب معاشرہ تصور بھی نہیں کر سکتا مگر اسلامی ملک بنگلہ دیش میں ایک ایسا علاقہ ہےجہاں رہنے والے قبیلے میں لڑکیوں کی شادی باپ سےزبردستی کروانے کا رواج ہے ۔
بنگلہ دیشی میڈیا رپورٹس کے مطابق بنگلہ دیش کے پہاڑی قبیلے ” منڈی “میں اگر کوئی بیوہ شادی کی خواہش کرے تو اسے اپنے ہی قبیلے یا خاندان کےکسی فرد سے شادی کرنا ہوتی ہے ،بیوہ کو اپنی شادی کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹی کا بیاہ بھی دوسرے شوہر سے کروانا ہوتا ہے۔منڈی قبیلے کا خیال ہے کہ ان کی اس رسم کی وجہ سے قبیلے کی نسل میں اضافہ ہوتا ہے کیوں کہ لڑکی سے ان کی نسل پروان چڑھتی ہے ، اس کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان کی دولت بھی محفوظ ہو جاتی ہے، کیوں کہ اگر بیوہ کا انتقال ہوجاتا ہے تو اس کے بعد اس کی ساری جائیداد کی وارث اس کی بیٹی بن جاتی ہے اور ان کی جائیداد قبیلے یا خاندان سے باہر نہیں جاتی۔
ایک بنگلہ دیشی میگزین نے اس قبیلے کی ایک ایسی ہی لڑکی کا انٹرویو کیا ہےجس کی شادی اس کی ماں کی دوسری شادی کے موقع پر اس کے سوتیلے باپ کے ساتھ کر دی تھی اور اس وقت اس کی عمر تین سال تھی۔ اورلا دلبوت اس وقت 30سال کی ہے اور اس کی اپنی ماں کے دوسرے خاوند اور اپنے سوتیلے باپ سے تین بچے ہیں جن میں بڑے بیٹے کی عمر 14سال ہے جبکہ ایک بیٹی 7سال کی جبکہ سب سے چھوٹی لڑکی کی عمر 19ماہ ہے۔
اورلا اور اس کی ماں متامونی کی محض چند ایکڑ زمین ہے جس پر وہ انناس اور کیلوں کی فصل تیار کر کے اپنی گزر بسر کرتی ہیں۔اورلا کے مطابق جب اسے بلوغت پر اپنے سوتیلے باپ کی بیوی ہونے کا انکشاف ہوا تو اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ یہاں سے بھاگ جائے، نوتن کو اپنی ماں کے ساتھ دیکھ کر وہ خوش ہوتی تھی اور دونوں کی سلامتی کیلئے دعا کرتی تھی ، وہ بھی چاہتی تھی کہ نوتن جیسا اس کا بھی شوہر ہو مگر جب اسے یہ پتہ چلا کہ ماں کی شادی کے ساتھ اس کی بھی شادی نوتن سے کر دی گئی ہے تو وہ لمحہ اس کیلئے بہت اذیت ناک تھا مگر پھر اس نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا۔