1891ء سے پہلے اس دنیا کا کوئی انسان نہیں جانتا تھا کہ خدائی کا دعویٰ کرنے والے فرعونوں کی باڈی کا کیا ہوا تھا یا ان کی باقیات کہاں ہیں یا کہیں ہیں بھی یا نہیں۔ الہامی کتابوں تورات، بائبل اور قرآن پاک میں اس واقعہ کا ذکر تفصیل سے ملتا تھا کہ حضرت موسیٰؑ اور بنی اسرائیل قوم کا پیچھا کرتا ہوا فرعون پانی میں غرق ہو کر اپنی فوج سمیت ڈوب گیا تھا۔
جبکہ حضرت موسیٰؑ اور ان کی قوم کو پانی نے اللہ کے حکم سے گزرنے کا راستہ دے دیا تھا۔ اس کے بعد اس کا کیا ہوا تھا اس بارے میں بائبل اور تورات خاموش ہیں لیکن قرآن پاک میں اس کے انجام کے بارے ایک بہت ہی عجیب بات کہی گئی تھی جس کی کسی کو سمجھ نہیں تھی کہ اس کا مطلب کیا ہے، خود مسلمان بھی اس بات کو پڑھ کر آگے گزر جایا کرتے یہ سمجھے بغیر کہ اس بات کا اشارہ کس جانب ہے۔
سورۃ یونس میں فرعون کے ڈوبنے کے بعد اس کا انجام کچھ اس طرح فرمایا گیا تھا۔ ’’پس ہم تیرے بدن کو (سمندر سے) نکال کر محفوظ کر لیں گے تاکہ تو بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت بن جائے‘‘۔ (سورہ یونس۔ آیت نمبر 92)۔ یہ واقعہ آج سے ساڑھے تین ہزار سال پہلے پیش آیا تھا، فرعون کے ڈوبنے کے بعد سمندر نے اس کی لاش کو اللہ کے حکم سے باہر پھینک دیا جبکہ باقی لشکر کا کوئی نام و نشان نہ ملا۔ مصریوں میں سے کسی شخص نے ساحل پر پڑی اس کی لاش پہچان کر اہل دربار کو بتایا۔ فرعون کی لاش کو محل پہنچایا گیا، درباریوں نے مسالے لگا کر اسے پوری شان اور احترام سے تابوت میں رکھ کر محفوظ کر دیا۔
حنوط کرنے کے عمل کے دوران ان سے ایک غلطی ہو گئی تھی، فرعون کیوں کہ سمندر میں ڈوب کر مرا تھا اور اس کے بعد کچھ عرصہ تک پانی میں رہنے کی وجہ سے اس کے جسم پر سمندری نمکیات کی ایک تہہ جمی رہ گئی تھی، مصریوں نے اس پر نمکیات کی وہ تہہ اسی طرح رہنے دی اور اسے اسی طرح حنوط کر دیا۔ وقت گزرتا رہا، زمین و آسمان نے بہت سے انقلاب دیکھے جن کی گرد کے نیچے سب کچھ چھپ گیا، حتیٰ کہ فرعونوں کے حنوط شدہ جسم بھی زمین کی تہوں میں چھپ گئے۔
ان کے نام صرف کتابوں، ان کی تعمیرات اور لوگوں کے ذہنوں میں رہ گئے۔ اس واقعے کے دو ہزار سال بعد اس دنیا میں اللہ کے آخری نبی حضرت محمدؐ تشریف لائے، ان پر نازل ہونے والی آخری کتاب میں فرعونوں کے قصے بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے تھے اور اسی سلسلے میں اس فرعون کا جسم محفوظ کرنے کی بابت آیت بھی نازل ہوئی تھی جس کی سچائی پر سب اہل ایمان کا پختہ یقین تو تھا لیکن وہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ اس خدائی کا دعوے کرنے والے کا جسم کہاں محفوظ کیا گیا اور کیسے اسے عبرت کا نشان بنایا جائے گا۔
1871ء میں مصر کے ایک شہر الغورنیہ سے تعلق رکھنے والے غریب اور معمولی چور احمد عبدالرسول کو فرعونوں کے حنوط شدہ جسموں کی طرف جانے والے خفیہ راستے تک رسائی مل گئی۔ احمد عبدالرسول نوادرات چوری کرکے بیچا کرتا تھا۔ ایک دن وہ دریائے نیل کے کنارے کے قریب تبیسہ کے مقام پر اسی سلسلے میں پھر رہا تھا جب اسے ایک خفیہ راستے کا پتہ چلا۔ وہاں وہ نوادرات کی چوری کے لئے جگہ کھود رہا تھا کہ اسی دوران اسے کچھ لوگوں نے پکڑ لیا اور پولیس کے حوالے کر دیا۔
وہ جس جگہ کو کھود رہا تھا وہاں سے ملنے والے راستے کی جب مسلسل کھدائی کی گئی۔1891ء میں دوسری ممیوں کے ساتھ اسی غرق ہونے والے فرعون کی باڈی بھی مل گئی۔ اس کے کفن پر سینے کے مقام پر اس کا نام لکھا ہوا تھا۔ ان ممیوں کو ماہرین قاہرہ لے گئے۔ جب ان ممیوں کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا تو فرعون والی ممی پر جمی نمکیات کی تہہ سے تصدیق ہوگئی کہ یہ وہی فرعون ہے جسے اللہ نے پانی میں غرق کرکے بدترین انجام سے ہمکنار کیا تھا۔ یہ بہت بڑا واقعہ تھا اس کی تصدیق کے لیے دنیا بھر کے ماہرین آثار قدیمہ اور سائنسدان مصر کی طرف امڈ پڑے۔ مختلف سائنسی ٹیسٹ کرنے کے بعد دنیا بھر کے سائنسدانوں نے تصدیق کر دی کہ دوسری سب لاشوں کی نسبت صرف فرعون کے جسم پر ہی سمندری نمکیات کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اس تصدیق کے بعد اسے فرعون کی باڈی قرار دے کر عجائب گھر میں محفوظ کر دیا گیا۔