پاکستان (نیوز اویل)، یہ دوسری صدی ہجری کا زمانہ تھا۔ دنیا کے چپے چپے میں اسلام کی کرنیں اپنی تابناک شعائیں بکھیر رہی تھیں۔ عرب باہم ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن چکے۔ جن جن ملکوں میں وہ جہاد کا پرچم لہراتے وہاں کے باشندوں کے ساتھ عدل و انصاف کا سلوک کرنا ان کی شان تھی۔
دوسری طرف مسلمان مبلغین بھی دعوت دین کا کام جاری رکھے ہوئے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہونے لگا۔ دوسری صدی کے خاتمے پر حکومت خلیفہ ہارون الرشید کے ہاتھ میں آئی۔ دنیا کے گوشے گوشے سے مسلمان حج ادا کرنے کے لیے بیت اللہ شریف آرہے تھے۔ مکہ مکرمہ میں پانی کی کمی تھی۔ حجاج کرام اور اہل مکہ بڑی مشکل سے پانی کا بندوبست کرتے۔
اسی زمانے میں ملکہ زبیدہ بنت جعفر حج کی ادائیگی کے لیے لیے آئی ہوئی تھیں۔ انہوں نے جب لوگوں کو پانی کی دشواری سے نبرد آزما ہوتے ہوئے دیکھا تو انہیں بہت افسوس ہوا۔ لہذا انہوں نے اپنے اخراجات میں سے ایک عظیم الشان نہر کھودنے کا حکم دے کر ایک ایسا ضرب المثال کارنامہ سرانجام دیا جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔
ملکہ زبیدہ کی خدمت کے لئے ایک سو نوکرانیاں تھیں۔ جن کو قرآن کریم زبانی یاد تھا اور وہ ہر وقت قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتی تھیں۔ ان کے محل میں سے ہر وقت وقت قرات کی آواز آتی رہتی تھی۔
ملکہ زبیدہ کے حکم پر مکہ مکرمہ سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر حنین سے نہر کھودنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ مقام میدان عرفات کے 12 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع تھا۔ اس کے علاوہ منا کے جنوب میں ایک تالاب بحر زبیدہ کے نام سے موجود تھا جس میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا تھا۔ اس نہر سے سات کاریزوں کے ذریعے پانی نہروں میں لے جایا گیا۔ پھر وہاں سے ایک چھوٹی نہر مکہ مکرمہ کی طرف اور ایک نہر میدان عرفات میں مسجد نمرہ تک لے جائی گئی۔
اس عظیم الشان منصوبے پر 17 لاکھ دینار خرچ ہوئے۔ ملکہ زبیدہ نے بہت جذبے اور خلوص سے نہر کی کھدائی کروائی تھی۔ انہوں نے حجاج کرام اور اہل مکہ کو پانی کی دشواری سے بچانے کے لیے یہ کام کیا جس کے لیے انہیں محض اللہ کی خوشنودی درکار تھی۔ ان کے اس عظیم الشان عمل سے پانی کی قلت کا مسئلہ حل ہوگیا۔