5ہزارکانوٹ بندہونے کی خبریں۔۔۔کیاواقعی ایسا ہونے جارہاہے؟سٹیٹ بینک نے بتادیا یہ سال 2016ء کی بات ہے کہ پاکستان نے دہ، شت، گ، ردی کے خلاف جنگ میں ایک نئی روح پھونکی اور پوری قوم آرمی پبلک اسکول کے بچوں کے ق، ات، لوں کو س، زا دلوانے کے لیے یک زبان ہوگئی۔نیشنل ایکشن پلان میں ناصرف دہ، شت، گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی کا اعلان ہوا بلکہ اس کے ساتھ ہی دہ، شت، گردوں کو مالی معاونت کےحوالے سے اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔
چونکہ بڑی مالیت کے کرنسی نوٹ ہونے کی وجہ سے اگر ایک لاکھ روپے منتقل کرنا ہوں تو 5 ہزار روپے کے 20 نوٹ درکار ہوں گے جو ایک سگ، ریٹ کی ڈبی میں باآسانی سما سکتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر ایک لاکھ روپے کے لیے ایک ہزار روپے مالیت کے نوٹ دیے جائیں تو اس مقصد کے لیے 100 نوٹ درکار ہوں گے، جبکہ اگر ایک سو روپے مالیت کے کرنسی نوٹ ہوں تو 100 روپے کی 10 گڈیاں درکار ہوں گی۔اسی طرح 40 ہزار کے 3 بانڈز ایک لاکھ 20 ہزار روپے بن جاتے ہیں جبکہ 25 ہزار روپے کے بانڈز ہوں تو محض 4 ہی میں ایک لاکھ روپے پورے ہوجاتے ہیں۔ مگر حکومت نے اس اہم چیز کو دُور کرنے کی کوشش نہیں کی اور اس طرح ہی لین دین جاری رہا۔اب یہ رقم ناصرف دہ، شت، گ، ردی کی فنانسگ اور بڑے پیمانے پر سرمائے کی منتقلی کے لیے استعمال ہوسکتی تھی بلکہ بڑی مالیت کے پرائز بانڈز منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کے لیے کھلے عام استعمال ہورہے ہیں۔
سال 2010ء میں خواجہ سعد رفیق سے جب ان کے اثاثوں میں اضافے کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بڑے پیمانے پر ان کے پرائز بانڈز نکلے ہیں۔ مگر عدالت میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ اگر یہ بانڈز ان کی ملکیت تھے تو انہوں نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں کیوں ظاہر نہیں کیے؟ اسی طرح وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے نے بھی اپنی آمدنی کے حوالے سے پرائز بانڈز کا ہی سہارا لیا۔آج بھی کراچی کی ایم اے جناح روڈ پر جا بجا دکانیں کھلی ہوئی ہیں جن میں پرائز بانڈز کی پرچیاں بانٹی جاتی ہیں۔ جہاں آپ کسی بھی بڑی مالیت کے بانڈ میں 100 روپے کی سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔ اگر مقررہ تاری پر بانڈ نکل آیا تو پرچی لینے والے افراد میں فی پرچی کے حساب سے انعامی رقم تقسیم کردی جاتی ہے اور انعام نہ نکلنے کی صورت میں پرچی ضائع ہوجاتی ہے۔
اسی طرح اگر بڑی مالیت کے بانڈ پر انعام نکل آتا تو آپ آسانی سے اس بانڈ کو انعام کی اصل رقم کے ساتھ کئی لاکھ اضافہ بھی حاصل کرسکتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس پرائز بانڈ پر انعام نکل آتاہے وہ کوئی بھی کاروباری شخصیت اس بانڈ کو کیش کروانے سے قبل ہی کئی لاکھ روپے اضافی قیمت پر خرید لیتی ہے اور یوں ان کا کالا دھن سفید ہوجاتا ہے۔یہ تو بھلا ہو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا جس نے حکومت کو پاکستان کے مالیاتی نظام میں موجود اس نقص کو درست کرنے کے لیے اقدامات کرنے پر مجبور کیا اور وزارتِ خزانہ کے ماتحت قومی بچت ڈائریکٹریٹ نے 25 ہزار اور 40 ہزار روپے مالیت کے پرائز بانڈز بتدریج واپس لینے کا عمل شروع کیا اور اب پہلے مرحلے میں 40 ہزار روپے مالیت کے بانڈز کو رجسٹر کروالیا ہے۔جو بھی اب اس مالیت کے پرائز بانڈ لینے کا خواہش مند ہوگا اس کو اپنے شاختی کارڈ کی کاپی، بینک اکاؤنٹ کی بنیادی تفصیل اور ٹیکس سرٹیفکیٹ فراہم کرنا ہوگا۔
اس وقت صرف 40 ہزار روپے مالیت کے پرائز بانڈز ہی سرمایہ کاری کے لیے دستیاب ہیں۔اس رجسٹریشن سے یہ پرائز بانڈز بغیر ملکیت کے نہیں رہے ہیں اور اگر ان پرائز بانڈز پر کوئی انعام نکل بھی آئے گا تو یہ انعام حاصل کرنے کا حق اسی فرد کا ہوگاجس کے نام یہ بانڈ رجسٹر ہوگا۔ اس طرح انعام نکلنے والے بانڈ کو کسی دوسرے کو فروخت نہیں کیا جاسکے گا۔دوسری جانب فنانس ڈویژن نے 25 ہزار روپے مالیت کے پرائز بانڈز کو 31 مئی 2021ء سے غیر فعال کردیا ہے۔ مگر اعلان کے مطابق تاحال ان بانڈز کو رجسٹر کرنے کا عمل شروع نہیں ہوا ہے۔
پرائز بانڈز کے حوالے سے تو حکومتِ پاکستان نے اقدامات اٹھالیے ہیں، مگر 5 ہزار روپے مالیت کے کرنسی نوٹوں کے حوالے سے اب تک اسٹیٹ بینک نے کوئی اقدام نہیں اٹھایا ہے۔اس حوالے سے معروف ٹیکس کنسلٹنٹ اور سابق اعزازی چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کا کہنا ہے کہ ’بڑی مالیت کے کرنسی نوٹوں کا خاتمہ پاکستان کی بقا کا مسئلہ ہے۔ اگر 5 ہزار کے نوٹ کو ختم نہ کیا گیا تو پاکستانی معیشت کو نہ تو دستاویزی کیا جاسکے گا اور نہ ہی پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکالا جاسکے گا۔ تعمیراتی صنعت کو دیے گئے پیکج میں یہ شرط رکھی ہے کہ بینک کے ذریعے لین دین ہو اور نقد نہ ہو۔