“لاہور کا سلطان” کہلائے جانے والے ٹھیکے دار۔۔۔ جنھوں نے “چھوٹی اینٹ کی ہوس” میں مساجد تک منہدم کروا دیں!

پاکستان (نیوز اویل)، لاہور میں موجود بہت سی جگہوں میں ماضی کا عکس نظر آتا ہے اور ماضی کی شان و شوکت دکھائی دیتی ہے جو کہ بہت سی کہانیاں بیان کر رہی ہیں ،

 

 

لاہور میں ایک دہلی گیٹ ہے وہاں سے شاہی گذرگاہیں آتی ہیں تو ان ہی گزرگاہون میں لکڑی کی لمبی بالکنی سے سجی ایک 4 منزلہ عمارت موجود ہے جو کہ دیکھنے والے کو اپنے شاندار ماضی کا پتا دیتی ہے ، اور یہ عمارت ” حویلی میاں سلطان ” ہے ۔ میاں سلطان سکھ دور کے ایک ٹھیکے دار ہوا کرتے تھے ،

 

 

میاں سلطان کے بچپن کی بات کی جائے تو وہ صرف دس سال کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور وہ اپنی بیوہ ماں کے ساتھ کشمیر سے لاہور آگئے اور یہی پر ان کے عروج کی داستان رقم ہوئی اور وہ لاہور کے مشہور میاں سلطان بن گئے جن کی داستانیں آج تک مشہور ہیں ،

 

 

 

سلطان جب لاہور پہنچے تھے تو یہاں بہت محنت مزدوری کی اور پھر یہاں صابن بنانے کا کام کیا اور اسی طرح محنت کی۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ تعلقات بنانے کے ماہر تھے انہوں نے بادشاہ سے درخواست کی کہ انھیں عمارتوں کی تعمیر کے لیے چونے کا ٹھیکا دیا جائے

 

 

کیوں کہ وہ ان وقت ایک چونے کا بھٹہ بنا چکے تھے سکھ بادشاہ نے انھیں قلعے کے لیے چونا فراہم کرنے کا ٹھیکا دے دیا اور اس طرح خوش قسمتی نے ان کے دروازے پر دستک دی اور ان کے بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ تعلقات بن گئے ۔

 

 

 

اس وقت لاہور کے سلطان کہلائے جانے والے ٹھیکے دار تھے جنھوں نے “چھوٹی اینٹ کی ہوس” میں مساجد تک منہدم کروا دیں اور بہت سی عمارتیں جو عالی شان تھیں ان کو گرا دیا گیا ، اور یہ معمولی سا شخص اک دن لاہور کا سلطان بن گیا ،

 

 

 

محمد سلطان کو لاہور سے ملتان تک ریلوے لائن بچھانے کے لیے ٹھیکہ دیا گیا ، اس پر جب پٹریوں کے ساتھ ڈالنے کے لیے پتھروں کی ضرورت تو سلطان کی نظر ہڑپہ کے تاریخی کھنڈروں پر پڑی

 

 

 

اور اس طرح سلطان نے قدیم تاریخ کے قدیم آثار اجاڑ دیے اور ہڑپہ کی اینٹیں اور پتھر استعمال کیے اور جب مضبوط اینٹوں کی ضرورت ہوئی تو اس وقت سلطان نے لاہور میں مغلیہ عمارتیں منہدم کرا دی

 

 

 

اور شاہ جہاں کے بیٹے داراشکوہ کے محل کو کھود کر ان کی بنیادوں سے بے حد پختہ اینٹیں نکالیں اور تب کچھ تباہ کر ڈالا ۔

 

 

محمد سلطان نے جو آخری مسجد اینٹیں حاصل کرنے کے لیے گرائی ستارہ بیگم کی حویلی کی مسجد تھی اور اس کے بعد سے ان کا زوال شروع ہو گیا ، اپنی تمام جائیداد گروی رکھنی پڑی اور آخری وقت میں ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا

 

 

 

اور وہ انتہائی بری حالت میں م ر ے اور فروری 1876 کو وہ لاہور میں وفات پا گئے تھے اور ان کو لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا گیا اور اس طرح تاریخ کے باب نے اپنے عروج کے ساتھ ساتھ اپنے زوال کی داستان بھی چھوڑی ۔

 

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *