وہ زمانہ جب لاہور میں بحری جہاز بنتے اور دریائی تجارت ہوتی تھی۔۔۔لاہور کے متعلق چند دلچسپ باتیں جن سے آپ آج تک بے خبر تھے!

پاکستان (نیوز اویل)، وہ زمانہ جب لاہور میں بحری جہاز بنتے اور دریائی تجارت ہوتی تھی
۔

 

 

وہ زمانہ جب لاہور قلعہ کی حالت اچھی نہ تھی تو وہاں کے حاکم کامران نے دریائے راوی کے پار اپنے لئے ایک بارہ دری بنوائی جو کہ عظیم الشان محل تھا۔

 

 

جلال الدین اکبر کے دور میں تجارت کی غرض سے گجرات سے بحر احمر کی طرف بحری جہاز بھیجے جاتے تھے۔ اکبر کے بنائے ہوئے دو بحری جہاز ہی تھے جن پر 1576

 

 

میں شاہی خاندان کی خواتین حج پر گئیں۔
اکبر کے دور میں بحری جہاز بنانے کی وجہ سے نہ صرف علم اور تجارت کو فروغ ملا بلکہ اس سے لوگوں کے لئے سفر کرنے میں بھی آسانی پیدا ہوئی۔ جب اکبر نے لاہور میں بحری جہاز بنانے کا سوچا تو اس کے لیے ہمالیہ کی

 

 

 

 

لکڑی استعمال کی گئی۔ بحری جہازوں کے علاوہ چھوٹی کشتیوں کی تعمیر کو بھی فروغ ملا۔ دریائے راوی کے ذریعے کشتیوں پر لاد کر تاجر شہر سے اشیاء ملتان اور ٹھٹھہ کی طرف لے کر جاتے تھے۔ اس دور میں تجارت عروج پر تھی اور لاہور میں بہت زیادہ غیر ملکی تاجر نظر آیا کرتے تھے۔

 

 

 

اورنگزیب، شاہجہان اور جہانگیر جیسے مغل بادشاہوں نے بھی جہازوں کی تعمیر کو جاری رکھا۔ اس دور میں جہاز تعمیر کرنے کا مقصد یا تو حج پر جانا ہوتا تھا یا پھر تجارت کرنا۔

 

 

دریائے چناب کے راستے چمبا کے پہاڑوں سے لکڑی کو لاہور لایا جاتا اور اس سے مختلف اشیاء تعمیر کی جاتیں۔ پھر تعمیر شدہ کشتیوں کو پانی کے راستے ٹھٹھہ اور ملتان پہنچا دیا جاتا۔ اس وقت زیادہ کشمیری

 

 

ہی تھے جو کشتی چلانے کے ہنر میں ماہر تھے۔
لاہور سے ٹھٹھہ تجارت کرنا تاجروں کے لئے نہایت مفید تھا کیوں کہ سامان پر کسٹم ڈیوٹی صرف 25۔2 فیصد تھی۔ اس کے علاوہ گزرگاہ یا گھاٹ کا ٹیکس محض 25۔0

 

 

 

فیصد تھا۔
تاہم کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ انیسویں صدی کے شروع تک دریائے راوی کے ذریعے تجارت نہیں کی ہوتی تھی کیونکہ اس وقت تک یہاں پر کوئی تجارتی کشتی موجود نہ تھی۔

 

 

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *