جب حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے لوگوں کو پیدا کرنے اور پھر مار دینے کی حکمت پوچھی تو اللہ تعالی نے کیا فرمایا۔۔۔

پاکستان (نیوز اویل)، ایک مرتبہ حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے سوال کیا آخر لوگوں کو پیدا کرنے اور پھر ان کو مار دینے کے پیچھے کیا حکمت کارفرما ہے؟

 

 

 

اس پر اللہ تعالی نے جواب دیا کہ موسی علیہ السلام کے سوال کی بنیاد غفلت اور انکار ہے۔ اور اللہ نے فرمایا کہ میں تجھے اس پر درگزر کرتا ہوں ورنہ میں سزا دیتا۔ تم خود اچھی طرح مخلوق کے پیدا کرنے کی حکمت سے آگاہ ہو۔ تم محض لوگوں کو حکمت سے آگاہ کرنے کے لئے یہ سوال پوچھ رہے ہو۔

 

 

 

 

کسی چیز کے بارے میں انسان سوال تبھی کرتا ہے جب اس کو اس چیز کے بارے میں کچھ نہ کچھ علم ہوتا ہے۔ اس لیے سوال کو آدھا علم کہا گیا ہے۔ تم خود تو ان حکمتوں اور اسرار و رموز سے واقف ہو لیکن تم چاہتے ہو

 

 

 

کہ لوگوں کو بھی ان سے آگاہ کر دو۔ کسی چیز کا علم ہی اس کے بارے میں سوال کرنے کی وجہ بنتا ہے۔ یہ علم ہی ہے جو انسان کو ہدایت دیتا ہے اور علم ہی انسان کو گمراہی کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔

 

 

 

اس سوال کی ایک ہی وجہ ہے کہ تو ان لوگوں کو حکمتوں سے وقف کرنا چاہتا ہے جو کہ ناواقف ہے۔
فرمایا کہ انسان کی روحیں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک پاک اور ایک ناپاک۔ مناسب بات یہی ہے کہ ان لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے۔

 

 

 

 

نیک روحوں کو انعام کے طور پر پر جنت دی جائے اور بدروحوں کو دوزخ میں بھیج دیا جائے گا۔ یہ وہ حکمت ھے جو انسان کو پیدا کرنے کے بعد مارنے میں ہے۔ اب اس حکمت کی طرف آتے ہیں

 

 

 

جو کہ انسان کو پیدا کرنے میں ہے اور وہ یہ ہے کہ ہماری صفات ظاہر ہو جائے۔ حدیث قدسی میں آیا ہے کہ میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا۔ میں نے چاہا کہ ظاہر ہو جاؤں تو اس لئے میں نے مخلوق کو تخلیق فرمایا۔

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *